الادب المفرد - حدیث 398

كِتَابُ بَابُ هِجْرَةِ الْمُسْلِمِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 398

کتاب کسی مسلمان سے قطع تعلقی (حرام ہے) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، باہم حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان)بھائی سے تین راتوں سے زیادہ ناراض رہے۔‘‘
تشریح : (۱)مطلب یہ ہے کہ ان اسباب سے بچو جو بغض کا سبب بنتے ہیں کیونکہ بغض ابتدائً پیدا نہیں ہوتا۔ (۲) ہر انسان کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ غیرت رکھی ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے اوپر نہیں دیکھنا چاہتا۔ کئی لوگ اس عالی مرتبہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ یہ مذموم نہیں۔ کچھ لوگ محنت کی بجائے دوسرے سے زوال نعمت کی تمنا کرتے ہیں اور حسد کی آگ میں جلتے ہیں کہ اس کے پاس کیوں ہے؟ میرے پاس کیوں نہیں؟ ایسی خواہش مذموم ہے۔ کچھ لوگ دوسرے کی وہ نعمت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے سے نعمت چھن جائے مجھے ملے نہ ملے اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ حسد کی بدترین صورت ہے اسی کا شکار ابلیس ہوا اور آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوا دیا۔ (۳) باہم ناراضی تین دن تک جائز ہے، اس کے بعد ترک کلام بغض و عناد اور دوری کا باعث بن جاتا ہے اس لیے اس کے بعد ناراضی ختم کر دینی چاہیے۔ البتہ خاوند اپنی بیوی سے چار ماہ تک ناراض رہ سکتا ہے۔ اسی طرح دین کی خاطر ناراضی بھی جائز ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹے بلال سے ناراض ہوئے جب انہوں نے ایک حدیث کو قبول کرنے میں پس و پیش کی۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے تین مخلص صحابہ کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کا پچاس دن بائیکاٹ کیا اور صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا۔ البتہ فاسق و فاجر اور بدعتی لوگوں سے قطع تعلقی واجب ہے تا وقتیکہ وہ توبہ کرلیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب:۶۰۷۶۔ ومسلم:۲۵۵۹۔ وأبي داود:۴۹۱۰۔ والترمذي:۱۹۳۵۔ انظر غایة المرام:۴۰۴۔ (۱)مطلب یہ ہے کہ ان اسباب سے بچو جو بغض کا سبب بنتے ہیں کیونکہ بغض ابتدائً پیدا نہیں ہوتا۔ (۲) ہر انسان کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے یہ غیرت رکھی ہے کہ وہ کسی کو اپنے سے اوپر نہیں دیکھنا چاہتا۔ کئی لوگ اس عالی مرتبہ کے حصول کی کوشش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔ یہ مذموم نہیں۔ کچھ لوگ محنت کی بجائے دوسرے سے زوال نعمت کی تمنا کرتے ہیں اور حسد کی آگ میں جلتے ہیں کہ اس کے پاس کیوں ہے؟ میرے پاس کیوں نہیں؟ ایسی خواہش مذموم ہے۔ کچھ لوگ دوسرے کی وہ نعمت ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے سے نعمت چھن جائے مجھے ملے نہ ملے اس سے کوئی غرض نہیں۔ یہ حسد کی بدترین صورت ہے اسی کا شکار ابلیس ہوا اور آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوا دیا۔ (۳) باہم ناراضی تین دن تک جائز ہے، اس کے بعد ترک کلام بغض و عناد اور دوری کا باعث بن جاتا ہے اس لیے اس کے بعد ناراضی ختم کر دینی چاہیے۔ البتہ خاوند اپنی بیوی سے چار ماہ تک ناراض رہ سکتا ہے۔ اسی طرح دین کی خاطر ناراضی بھی جائز ہے جیسا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹے بلال سے ناراض ہوئے جب انہوں نے ایک حدیث کو قبول کرنے میں پس و پیش کی۔ جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک سے پیچھے رہنے والے تین مخلص صحابہ کعب بن مالک، ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کا پچاس دن بائیکاٹ کیا اور صحابہ کرام کو اس کا حکم دیا۔ البتہ فاسق و فاجر اور بدعتی لوگوں سے قطع تعلقی واجب ہے تا وقتیکہ وہ توبہ کرلیں۔