الادب المفرد - حدیث 390

كِتَابُ بَابُ الصَّبْرِ عَلَى الْأَذَى حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ: سَمِعْتُ شَقِيقًا يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، كَبَعْضِ مَا كَانَ يَقْسِمُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: وَاللَّهِ، إِنَّهَا لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قُلْتُ أَنَا: لَأَقُولَنَّ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، وَهُوَ فِي أَصْحَابِهِ، فَسَارَرْتُهُ، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، وَغَضِبَ، حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَخْبَرَتْهُ، ثُمَّ قَالَ: ((قَدْ أُوذِيَ مُوسَى بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَبَرَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 390

کتاب تکلیف دہی پر صبر کرنا حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوہ حنین کے موقع پر)مال تقسیم کیا جس طرح پہلے بھی کرتے تھے (تو اس میں آپ نے نو مسلموں کو ترجیح دی)ایک انصاری شخص نے کہا:اللہ کی قسم! اس تقسیم سے اللہ کی رضا مقصود نہیں تھی۔ میں نے کہا:میں یہ بات ضرور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاؤں گا، چنانچہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سرگوشی کے طور پر آپ کو بتایا۔ آپ اس وقت صحابہ کرام میں تشریف فرما تھے۔ آپ پر یہ بات بہت گراں گزری اور آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ شدید غضب ناک ہوئے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کہ میں آپ کو نہ ہی بتاتا (تو بہتر تھا)پھر آپ نے فرمایا:’’یقیناً موسیٰ علیہ السلام کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تو انہوں نے صبر کیا۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سخی دل تھے۔ آپ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ اسی طرح مال غنیمت جب آپ کے پاس آتا تو آپ اسے تقسیم کر دیتے۔ فتح مکہ کے بعد معرکہ حنین پیش آیا تو وہاں سے کافي زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا لیکن نو مسلموں کی تالیف قلب کے لیے انہیں زیادہ زیادہ دیا تو ایک انصاری نے اعتراض کیا جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا جس پر آپ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ سچائی کی تلاش کی خاطر یا خیر خواہی کے لیے کسی کی بات آگے کی جاسکتی ہے بشرطیکہ فتنہ گری مقصود نہ ہو۔ (۳) اپنے بارے میں غلط بات سن کر غصہ آجانا دین داری کے خلاف نہیں ہے، تاہم اہل علم کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس پر صبر کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں، نیز انتقامی کاروائی نہ کریں۔ (۴) اہل علم و فضل کی برائی بیان نہیں کرنی چاہیے اور ان کی کوئی بات بظاہر غلط لگے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اور اس کی حقیقت جانے بغیر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے (۵) دینی حوالے سے پیش آنے والے مصائب میں اپنے سلف کے نقش قدم کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کے واقعات کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ صبر کرنے میں آسانی رہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب أحادیث الانبیاء عليهم السلام:۳۱۵۰، ۳۴۰۵۔ ومسلم:۱۰۶۲۔ والترمذي:۳۸۹۶۔ انظر الصحیحة:۳۱۷۵۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سخی دل تھے۔ آپ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ اسی طرح مال غنیمت جب آپ کے پاس آتا تو آپ اسے تقسیم کر دیتے۔ فتح مکہ کے بعد معرکہ حنین پیش آیا تو وہاں سے کافي زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ نے اسے لوگوں میں تقسیم کر دیا لیکن نو مسلموں کی تالیف قلب کے لیے انہیں زیادہ زیادہ دیا تو ایک انصاری نے اعتراض کیا جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا جس پر آپ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ سچائی کی تلاش کی خاطر یا خیر خواہی کے لیے کسی کی بات آگے کی جاسکتی ہے بشرطیکہ فتنہ گری مقصود نہ ہو۔ (۳) اپنے بارے میں غلط بات سن کر غصہ آجانا دین داری کے خلاف نہیں ہے، تاہم اہل علم کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس پر صبر کریں اور عفو و درگزر سے کام لیں، نیز انتقامی کاروائی نہ کریں۔ (۴) اہل علم و فضل کی برائی بیان نہیں کرنی چاہیے اور ان کی کوئی بات بظاہر غلط لگے تو اس پر صبر کرنا چاہیے اور اس کی حقیقت جانے بغیر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے (۵) دینی حوالے سے پیش آنے والے مصائب میں اپنے سلف کے نقش قدم کی پیروی کرنی چاہیے اور ان کے واقعات کو سامنے رکھنا چاہیے تاکہ صبر کرنے میں آسانی رہے۔