الادب المفرد - حدیث 386

كِتَابُ بَابُ لَا يَصْلُحُ الْكَذِبُ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ يَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَالْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 386

کتاب جھوٹ بولنا درست نہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’سچائی کو لازم پکڑو کیونکہ سچائی نیکی اور اطاعت کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی راہ ہموار کرتی ہے اور بلاشبہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے بہت سچا لکھ دیا جاتا ہے۔ا ور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور آگ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں اسے بہت جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)صدق سے مراد قول و فعل کی سچائی ہے کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کے مطابق ہو۔ جو زبان سے کہے دل اس کی تصدیق کرے۔ ایسا اجلا کردار انسان کے لیے نیکی کی راہ ہموار کرتا ہے اور انسان اطاعت الٰہی کا خوگر ہو جاتا ہے۔ حقوق اللہ کا معاملہ ہو یا حقوق العباد کی بات یا عزیز واقارب سے صلہ رحمی ہر معاملے میں انسان نیکی اور اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے جس کا صلہ اسے دنیا میں عزت و توقیر کی صورت میں اور آخرت میں جنت کی صورت میں ملتا ہے۔ لوگوں میں ایسے شخص کی اچھائی کا چرچا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاں موجود فرشتوں میں اس کا نام صدیق رکھ دیتا ہے اور وہ اسے سچا انسان ہونے کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ (۲) پچھلی حدیث سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جھوٹ کوئی بڑی برائی نہیں ہے کیونکہ بعض مواقع پر اس کی اجازت ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جہاں اجازت ہے وہاں انتہائی صورت میں ہے، ہر مصلحت کے لیے جھوٹ بولنے کا جواز ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہر جھوٹ بولنے والا مصلحت کے پیش نظر ہی جھوٹ بولتا ہے۔ جھوٹ انسان کو فسادی بنا کر راہ مستقیم سے ہٹا دیتا ہے اور یوں وہ معصیت کی راہ اختیار کرکے جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ کبھی سچے مسلمان سے بھی جھوٹ کا صدور ممکن ہے، تاہم جب کسی کا وصف ثانی بن جائے تو پھر انسان کو نفاق کے زمرے میں داخل کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا شمار جھوٹوں میں ہونے لگتا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب:۶۰۹۴۔ ومسلم:۲۶۰۷۔ وأبي داود:۴۹۸۹۔ والترمذي:۱۹۷۱۔ ورواہ ابن ماجة بمعناه:۴۶۔ وانظر المشکاة:۴۸۲۴۔ (۱)صدق سے مراد قول و فعل کی سچائی ہے کہ انسان کا ظاہر اس کے باطن کے مطابق ہو۔ جو زبان سے کہے دل اس کی تصدیق کرے۔ ایسا اجلا کردار انسان کے لیے نیکی کی راہ ہموار کرتا ہے اور انسان اطاعت الٰہی کا خوگر ہو جاتا ہے۔ حقوق اللہ کا معاملہ ہو یا حقوق العباد کی بات یا عزیز واقارب سے صلہ رحمی ہر معاملے میں انسان نیکی اور اطاعت کی راہ اختیار کرتا ہے جس کا صلہ اسے دنیا میں عزت و توقیر کی صورت میں اور آخرت میں جنت کی صورت میں ملتا ہے۔ لوگوں میں ایسے شخص کی اچھائی کا چرچا ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے ہاں موجود فرشتوں میں اس کا نام صدیق رکھ دیتا ہے اور وہ اسے سچا انسان ہونے کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ (۲) پچھلی حدیث سے یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ جھوٹ کوئی بڑی برائی نہیں ہے کیونکہ بعض مواقع پر اس کی اجازت ہے۔ یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ جہاں اجازت ہے وہاں انتہائی صورت میں ہے، ہر مصلحت کے لیے جھوٹ بولنے کا جواز ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہر جھوٹ بولنے والا مصلحت کے پیش نظر ہی جھوٹ بولتا ہے۔ جھوٹ انسان کو فسادی بنا کر راہ مستقیم سے ہٹا دیتا ہے اور یوں وہ معصیت کی راہ اختیار کرکے جہنم رسید ہو جاتا ہے۔ کبھی سچے مسلمان سے بھی جھوٹ کا صدور ممکن ہے، تاہم جب کسی کا وصف ثانی بن جائے تو پھر انسان کو نفاق کے زمرے میں داخل کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کا شمار جھوٹوں میں ہونے لگتا ہے۔