الادب المفرد - حدیث 369

كِتَابُ بَابُ قَوْلِ الرَّجُلِ لِلصَّغِيرِ: يَا بُنَيَّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْعَجْلَانِ الْمُحَارِبِيِّ قَالَ: كُنْتُ فِي جَيْشِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَتُوُفِّيَ ابْنُ عَمٍّ لِي، وَأَوْصَى بِجَمَلٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقُلْتُ لِابْنِهِ: ادْفَعْ إِلَيَّ الْجَمَلَ، فَإِنِّي فِي جَيْشِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: اذْهَبْ بِنَا إِلَى ابْنِ عُمَرَ حَتَّى نَسْأَلَهُ، فَأَتَيْنَا ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنَّ وَالِدِي تُوُفِّيَ، وَأَوْصَى بِجَمَلٍ لَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَهَذَا ابْنُ عَمِّي، وَهُوَ فِي جَيْشِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، أَفَأَدْفَعُ إِلَيْهِ الْجَمَلَ؟ قَالَ ابْنُ عُمَرَ: يَا بُنَيَّ، إِنَّ سَبِيلَ اللَّهِ كُلُّ عَمَلٍ صَالِحٍ، فَإِنْ كَانَ وَالِدُكَ إِنَّمَا أَوْصَى بِجَمَلِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِذَا رَأَيْتَ قَوْمًا مُسْلِمِينَ يَغْزُونَ قَوْمًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْفَعْ إِلَيْهِمُ الْجَمَلَ، فَإِنْ هَذَا وَأَصْحَابَهُ فِي سَبِيلِ غِلْمَانِ قَوْمٍ أَيُّهُمْ يَضَعُ الطَّابَعَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 369

کتاب چھوٹے بچے کو اپنا بیٹا کہہ کر بلانا ابو العجلان محاربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر میں تھا کہ میرا ایک چچا زاد فوت ہوگیا اور اس کا ایک اونٹ تھا جس کے بارے میں وصیت کر گیا کہ یہ اللہ کی راہ میں دے دینا۔ میں نے اس کے بیٹے سے کہا:وہ اونٹ مجھے دے دو کیونکہ میں ابن زبیر کے لشکر میں ہوں۔ اس نے کہا:ہمیں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس لے جاؤ تاکہ مسئلہ دریافت کریں۔ ہم ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور اس کہا:اے ابوعبدالرحمن! میرا باپ فوت ہوگیا ہے اور ایک اونٹ اللہ کی راہ میں وقف کرگیا ہے اور یہ میرا چچا زاد ابن زبیر رضی اللہ عنہما کی فوج میں ہے۔ کیا یہ اونٹ میں اسے دے سکتا ہوں؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اے بیٹے! بلاشبہ ہر عمل صالح اللہ کی راہ ہے۔ اگر تیرے والد نے یہ اونٹ صرف اللہ عزوجل کی راہ میں دینے کی وصیت کی ہے تو جب تم دیکھو کہ مسلمانوں کی کوئی جماعت مشرکین سے برسر پیکار ہے تو انہیں وہ اونٹ دے دینا۔ یہ صاحب اور اس کے ساتھی تو اپنے لڑکوں کے راستے میں جنگ کر رہے ہیں جن میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اس کا حکم نافذ ہو۔
تشریح : (۱)اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیر القرون کے لوگوں میں کس قدر جذبہ جہاد تھا کہ وہ مرتے وقت بھی لشکروں کی تیاری کی فکر میں رہتے تھے۔ (۲) پیش آمدہ مسائل میں علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ حق بات معلوم ہوسکے جیسا کہ ابو العجلان کے چچا زاد کے بیٹے نے کیا۔ اور علماء کو بھی چاہیے کہ بغیر مداہنت کے مبنی برحکمت اور درست جواب دیں۔ (۳) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یا بنی کہہ کر بلانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی چھوٹے کو بیٹا! کہہ کر بلایا جاسکتا ہے۔ (۴) مسلمانوں کی باہم اقتدار کے لیے لڑائی في سبیل اللہ نہیں ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کو فتنہ سمجھتے تھے جس میں شرکت کی ممانعت ہے۔ جہاد في سبیل اللہ صرف وہ ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر ہو۔
تخریج : حسن:أخرجه أبو إسحاق الفزاري في السید،ص:۱۳۷۔ (۱)اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خیر القرون کے لوگوں میں کس قدر جذبہ جہاد تھا کہ وہ مرتے وقت بھی لشکروں کی تیاری کی فکر میں رہتے تھے۔ (۲) پیش آمدہ مسائل میں علماء کی طرف رجوع کرنا چاہیے تاکہ حق بات معلوم ہوسکے جیسا کہ ابو العجلان کے چچا زاد کے بیٹے نے کیا۔ اور علماء کو بھی چاہیے کہ بغیر مداہنت کے مبنی برحکمت اور درست جواب دیں۔ (۳) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یا بنی کہہ کر بلانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ کسی چھوٹے کو بیٹا! کہہ کر بلایا جاسکتا ہے۔ (۴) مسلمانوں کی باہم اقتدار کے لیے لڑائی في سبیل اللہ نہیں ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کو فتنہ سمجھتے تھے جس میں شرکت کی ممانعت ہے۔ جہاد في سبیل اللہ صرف وہ ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ کی خاطر ہو۔