الادب المفرد - حدیث 361

كِتَابُ بَابُ تَسْوِيدِ الْأَكَابِرِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا، عَنْ حَكِيمِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بَنِيهِ فَقَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ وَسَوِّدُوا أَكْبَرُكُمْ، فَإِنَّ الْقَوْمَ إِذَا سَوَّدُوا أَكْبَرَهُمْ خَلَفُوا أَبَاهُمْ، وَإِذَا سَوَّدُوا أَصْغَرَهُمْ أَزْرَى بِهِمْ ذَلِكَ فِي أَكْفَائِهِمْ. وَعَلَيْكُمْ بِالْمَالِ وَاصْطِنَاعِهِ، فَإِنَّهُ مَنْبَهَةٌ لِلْكَرِيمِ، وَيُسْتَغْنَى بِهِ عَنِ اللَّئِيمِ. وَإِيَّاكُمْ وَمَسْأَلَةَ النَّاسِ، فَإِنَّهَا مِنْ آخِرِ كَسْبِ الرَّجُلِ. وَإِذَا مُتُّ فَلَا تَنُوحُوا، فَإِنَّهُ لَمْ يُنَحْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَإِذَا مُتُّ فَادْفِنُونِي بِأَرْضٍ لَا يَشْعُرُ بِدَفْنِي بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ، فَإِنِّي كُنْتُ أُغَافِلُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 361

کتاب بڑوں کو سردار بنانے کا بیان حضرت حکیم بن قیس بن عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:اللہ سے ڈرنا اور اپنے میں سے جو سب سے بڑا ہے اسے سردار بنانا۔ بلاشبہ جو قوم اپنے بڑے کو سردار بناتی ہے تو وہ اپنے باپ کا صحیح قائم مقام بناتی ہے اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے تو یہ چیز ان سب کو برابر والوں میں ذلیل کر دیتی ہے۔ اور تم مال کمانے اور اسے مشروع طریقے سے بڑھانے کا خیال رکھنا کیونکہ یہ شریف آدمی کی عزت کی بات ہے اور اس کے ذریعے سے وہ کمینے آدمی سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور لوگوں سے سوال نہ کرنا کیونکہ یہ مال کمانے کا آخری ذریعہ ہے (کہ جب بندہ بالکل مجبور ہو جائے تو کسی سے سوال کرے)اور جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھ پر نوحہ نہ کرنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا۔ اور وفات کے بعد مجھے ایسی جگہ دفن کرنا جس کا بکر بن وائل کو علم نہ ہو کیونکہ میں زمانہ جاہلیت میں ان پر بے خبری میں حملہ کر دیا کرتا تھا۔
تشریح : (۱)اس اثر میں بھی بڑوں کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کا حکم ہے اور یہ کہ جو خاندان اس کا اہتمام نہیں کرتے وہ معاشرے میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔ (۲) اولاد اور خاندان والوں کو مرتے وقت اچھی وصیت کرنا سنت نبوی ہے اور سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔ اس پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) انسان کو اگر خدشہ ہو کہ اس کی وفات کے بعد نوحہ وغیرہ بدعات ہوں گی تو اسے زندگی میں منع کر دینا چاہیے۔ (۴) پرہیزگاری کے ساتھ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس کے حصول کی کوشش کرنا اور حلال طریقے سے اس کو بڑھانا پسندیدہ عمل ہے تاکہ انسان باعزت زندگی گزار سکے۔ اس کے برعکس دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنا دنیا و آخرت میں ذلت کا باعث ہے۔ (۵) قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار اور نہایت شریف الطبع اور بہادر انسان تھے۔ حلم و بردباری ان کا خاص وصف تھا۔ احنف بن قیس سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حلم کس سے سیکھا ہے تو انہوں نے کہا:قیس بن عاصم سے۔ وہ اس طرح کہ ایک دن وہ اپنے ڈیرے پر تلوار لگائے بیٹھے لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ ایک آدمی کو اس طرح لایا گیا کہ اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی ایک مقتول کو لایا گیا۔ ان سے کہا گیا:آپ کے اس بھتیجے نے آپ کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ احنف کہتے ہیں:اللہ کی قسم! انہوں نے جو چادر ٹیک کے لیے باندھ رکھی تھی نہ وہ کھولی اور نہ اپنا سلسلہ کلام منقطع کیا۔ جب بات کر چکے تو اپنے دوسرے بیٹے سے کہا:اٹھو اور اپنے بھائی کو دفن کرنے کا انتظام کرو اور چچا زاد کی مشکیں کھول دو۔ اور بھتیجے سے کہا:تم نے اپنی ہی تعداد کم کی ہے اور اپنی قوت کو کمزور کیا ہے اور دشمن کو ہنسا کر اپنی قوم کے ساتھ برا کیا ہے۔ پھر کہا کہ اس (بیٹے)کی ماں کو سو اونٹ بطور دیت ادا کرو۔ (فضل اللہ الصمد:۱؍۳۸۶)
تخریج : حسن:أخرجه المصنف في تاریخه:۳؍ ۱۲۔ وأحمد:۲۰۶۱۲۔ والطیالسي:۱۰۸۵۔ والطبراني في الکبیر:۱۸؍ ۳۳۹۔ وابن أبي عاصم في الاحاد:۱۱۶۴۔ (۱)اس اثر میں بھی بڑوں کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنے کا حکم ہے اور یہ کہ جو خاندان اس کا اہتمام نہیں کرتے وہ معاشرے میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔ (۲) اولاد اور خاندان والوں کو مرتے وقت اچھی وصیت کرنا سنت نبوی ہے اور سلف کا بھی یہی طریقہ رہا ہے۔ اس پر عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔ (۳) انسان کو اگر خدشہ ہو کہ اس کی وفات کے بعد نوحہ وغیرہ بدعات ہوں گی تو اسے زندگی میں منع کر دینا چاہیے۔ (۴) پرہیزگاری کے ساتھ مال اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس کے حصول کی کوشش کرنا اور حلال طریقے سے اس کو بڑھانا پسندیدہ عمل ہے تاکہ انسان باعزت زندگی گزار سکے۔ اس کے برعکس دوسروں کے سامنے دست سوال دراز کرنا دنیا و آخرت میں ذلت کا باعث ہے۔ (۵) قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے سردار اور نہایت شریف الطبع اور بہادر انسان تھے۔ حلم و بردباری ان کا خاص وصف تھا۔ احنف بن قیس سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے حلم کس سے سیکھا ہے تو انہوں نے کہا:قیس بن عاصم سے۔ وہ اس طرح کہ ایک دن وہ اپنے ڈیرے پر تلوار لگائے بیٹھے لوگوں سے باتیں کر رہے تھے کہ ایک آدمی کو اس طرح لایا گیا کہ اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اور ساتھ ہی ایک مقتول کو لایا گیا۔ ان سے کہا گیا:آپ کے اس بھتیجے نے آپ کے بیٹے کو قتل کر دیا ہے۔ احنف کہتے ہیں:اللہ کی قسم! انہوں نے جو چادر ٹیک کے لیے باندھ رکھی تھی نہ وہ کھولی اور نہ اپنا سلسلہ کلام منقطع کیا۔ جب بات کر چکے تو اپنے دوسرے بیٹے سے کہا:اٹھو اور اپنے بھائی کو دفن کرنے کا انتظام کرو اور چچا زاد کی مشکیں کھول دو۔ اور بھتیجے سے کہا:تم نے اپنی ہی تعداد کم کی ہے اور اپنی قوت کو کمزور کیا ہے اور دشمن کو ہنسا کر اپنی قوم کے ساتھ برا کیا ہے۔ پھر کہا کہ اس (بیٹے)کی ماں کو سو اونٹ بطور دیت ادا کرو۔ (فضل اللہ الصمد:۱؍۳۸۶)