الادب المفرد - حدیث 359

كِتَابُ بَابُ يَبْدَأُ الْكَبِيرُ بِالْكَلَامِ وَالسُّؤَالِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُمَا حَدَثَا، أَوْ حَدَّثَاهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ، فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كَبِّرِ الْكِبَرَ)) - قَالَ يَحْيَى: لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ - فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَحِقُّوا قَتِيلَكُمْ - أَوْ قَالَ: صَاحِبَكُمْ - بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ، قَالَ: ((فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ)) ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ. فَفَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ، فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ، فَرَكَضَتْنِي بِرِجْلِهَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 359

کتاب بات کرتے اور سوال کرتے وقت پہلے بڑا بات کرے حضرت رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود دونوں خیبر آئے تو کھجوروں کے جھنڈ میں الگ الگ ہوگئے۔ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے تو عبدالرحمن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے مقتول کے بارے میں بات کی۔ عبدالرحمن جو سب سے چھوٹے تھے، بات کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’بڑے کو بات کرنے دو۔‘‘ یحییٰ نے کہا کہ آپ کا مطلب تھا بڑا اٹھ کر بات کرے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مقتول کے متعلق بات کی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے پچاس آدمی قسم دے کر اپنے مقتول کے خون بہا کے مستحق بن سکتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول! وہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ہم نے دیکھا نہیں (تو قسم کیسے دیں)آپ نے فرمایا:’’پھر یہودی پچاس قسمیں دے کر (کہ ہم نے قتل نہیں کیا)بری ہو جائیں گے۔‘‘ انہوں نے کہا:وہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار)پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی طرف سے ادا فرما دی۔ حضرت سہل (بن ابی حثمہ)کہتے کہ میں ایک دفعہ ان کے اونٹوں کے باڑے میں داخل ہوا تو ان (دیت کے اونٹوں)میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تشریح : (۱)اس حدیث کو حدیث قسامہ کہا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ جن دنوں مسلمانوں کی خیبر کے یہودیوں سے صلح تھی ان دنوں عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود کاروبار کے سلسلے میں خیبر گئے۔ وہاں جاکر جدا ہوئے تو عبداللہ بن سہل کو کسی نے قتل کر دیا۔ محیصہ نے دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہے اور اس کی گردن بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے یہود کو بلوایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے قتل نہیں کیا۔ آپ نے مقتول کے وارثوں کو کہا کہ تم پچاس آدمی قسمیں کھاؤ کہ ان یہودیوں نے تمہارے بندے کو قتل کیا ہے تو وہ دیت دیں گے اور اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر ان یہودیوں سے پچاس قسمیں لے لو۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو کافر ہیں۔ جھوٹ بول کر جان چھڑا لیں گے۔ اب قانون یہی تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ حل نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان کا خون رائیگاں جا رہا تھا اس لیے آپ نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی۔ یوں قسامہ کا طریقہ جاری رہا۔ (۲) جب وہ گفتگو کرنے لگے تو آپ نے بڑے کو بات کرنے کے لیے کہا جس سے معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جب بڑے موجود ہوں تو چھوٹوں کو بات نہیں کرنی چاہیے۔ (۳) عام جھگڑے میں مدعی کے ذمے دلیل ہے اور اگر وہ دلیل پیش نہ کرسکے تو مدعی علیہ پر قسم ہے جبکہ قسامہ میں پہلے مدعی سے قسم کا مطالبہ ہوگا۔ (۴) حدیث کے آخر میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کا جو قول ہے کہ ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے وہ واقعہ مکمل طور پر یاد ہے حتی کہ ان کے باڑے میں جانا بھی۔ اس لیے میں نے حدیث کو یاد رکھا ہے بھولا نہیں ہوں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب إکرام الکبیر....:۶۱۴۲، ۲۷۰۲۔ ومسلم:۱۶۶۹۔ وأبي داود:۴۵۲۰۔ والترمذي:۱۴۲۲۔ والنسائي:۲۶۷۷۔ وابن ماجة:۴۷۱۰۔ انظر الارواء:۱۶۴۶۔ (۱)اس حدیث کو حدیث قسامہ کہا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ جن دنوں مسلمانوں کی خیبر کے یہودیوں سے صلح تھی ان دنوں عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود کاروبار کے سلسلے میں خیبر گئے۔ وہاں جاکر جدا ہوئے تو عبداللہ بن سہل کو کسی نے قتل کر دیا۔ محیصہ نے دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہے اور اس کی گردن بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے یہود کو بلوایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے قتل نہیں کیا۔ آپ نے مقتول کے وارثوں کو کہا کہ تم پچاس آدمی قسمیں کھاؤ کہ ان یہودیوں نے تمہارے بندے کو قتل کیا ہے تو وہ دیت دیں گے اور اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر ان یہودیوں سے پچاس قسمیں لے لو۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو کافر ہیں۔ جھوٹ بول کر جان چھڑا لیں گے۔ اب قانون یہی تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ حل نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان کا خون رائیگاں جا رہا تھا اس لیے آپ نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی۔ یوں قسامہ کا طریقہ جاری رہا۔ (۲) جب وہ گفتگو کرنے لگے تو آپ نے بڑے کو بات کرنے کے لیے کہا جس سے معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جب بڑے موجود ہوں تو چھوٹوں کو بات نہیں کرنی چاہیے۔ (۳) عام جھگڑے میں مدعی کے ذمے دلیل ہے اور اگر وہ دلیل پیش نہ کرسکے تو مدعی علیہ پر قسم ہے جبکہ قسامہ میں پہلے مدعی سے قسم کا مطالبہ ہوگا۔ (۴) حدیث کے آخر میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کا جو قول ہے کہ ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے وہ واقعہ مکمل طور پر یاد ہے حتی کہ ان کے باڑے میں جانا بھی۔ اس لیے میں نے حدیث کو یاد رکھا ہے بھولا نہیں ہوں۔