الادب المفرد - حدیث 357

كِتَابُ بَابُ إِجْلَالِ الْكَبِيرِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ قَالَ: قَالَ أَبُو كِنَانَةَ، عَنِ الْأَشْعَرِيِّ قَالَ: إِنَّ مِنَ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ، غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ، وَلَا الْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 357

کتاب بڑوں کی عزت و تکریم کرنا حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کے اکرام میں سے یہ بھی ہے کہ عمر رسیدہ مسلمان کی عزت و توقیر کی جائے اور حامل قرآن کا بھی اکرام کیا جائے جو غلو کرنے والا اور اس سے دوری اختیار کرنے والا نہ ہو، نیز انصاف پسند حاکم کا اکرام بھی اس میں شامل ہے۔ ‘‘
تشریح : (۱)عمر رسیدہ اور بوڑھے مسلمان کی تعظیم و توقیر کرنا کہ اس کے ساتھ عزت سے پیش آنا اور مجلس وغیرہ میں جگہ دینا اور اس کی بات سننا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا ہے کیونکہ اس کی عزت کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کی عزت و تکریم ہے۔ (۲) قرآن مجید کے قاری اور حافظ و عالم کو حامل قرآن کہا گیا ہے کیونکہ وہ اس کے حصول کے لیے بہت زیادہ مشقت برداشت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ دو شرطیں عائد کر دیں کہ ایک تو وہ غلو کرنے والا نہ ہو۔ قرآن میں غلو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے اس قدر زیادہ پڑھتا ہے کہ دیگر فرائض کو اس کی وجہ سے ترک کر دیتا ہے یا پھر زندگی کے دیگر معاملات میں غلو کرتا ہے جو قرآن کی تعلیم کے منافي ہے کیونکہ اس میں میانہ روی کا حکم ہے۔ یا پھر تجوید میں غلو مراد ہے کہ اس میں تدبیر اور قرآن کے مقصد کو بھول ہی جاتا ہے۔ اور جفایہ ہے کہ اسے پڑھنا چھوڑ دے یا پڑھ کر بھلا دے یا پھر ا س سے عملی راہنمائی نہ لے۔ مختصر یہ کہ جو عالم قرآن کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار نہ ہو اس کی تکریم بھی ضروری ہے۔ (۳) انصاف پسند اور عادل حکمران کی عزت و تکریم کرنا اور اس کی نصرت و تائید کرنا فرض ہے اور جو انصاف پسند حاکم کی اہانت کرے، وہ بہت بڑا مجرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی توہین کرتا ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه أبي داود مرفوعًا، کتاب الأدب، باب في تنزیل الناس منازلهم:۴۸۴۳۔ انظر صحیح الترغیب:۹۸۔ (۱)عمر رسیدہ اور بوڑھے مسلمان کی تعظیم و توقیر کرنا کہ اس کے ساتھ عزت سے پیش آنا اور مجلس وغیرہ میں جگہ دینا اور اس کی بات سننا اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنا ہے کیونکہ اس کی عزت کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس کی عزت و تکریم ہے۔ (۲) قرآن مجید کے قاری اور حافظ و عالم کو حامل قرآن کہا گیا ہے کیونکہ وہ اس کے حصول کے لیے بہت زیادہ مشقت برداشت کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ دو شرطیں عائد کر دیں کہ ایک تو وہ غلو کرنے والا نہ ہو۔ قرآن میں غلو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ اسے اس قدر زیادہ پڑھتا ہے کہ دیگر فرائض کو اس کی وجہ سے ترک کر دیتا ہے یا پھر زندگی کے دیگر معاملات میں غلو کرتا ہے جو قرآن کی تعلیم کے منافي ہے کیونکہ اس میں میانہ روی کا حکم ہے۔ یا پھر تجوید میں غلو مراد ہے کہ اس میں تدبیر اور قرآن کے مقصد کو بھول ہی جاتا ہے۔ اور جفایہ ہے کہ اسے پڑھنا چھوڑ دے یا پڑھ کر بھلا دے یا پھر ا س سے عملی راہنمائی نہ لے۔ مختصر یہ کہ جو عالم قرآن کے حوالے سے افراط و تفریط کا شکار نہ ہو اس کی تکریم بھی ضروری ہے۔ (۳) انصاف پسند اور عادل حکمران کی عزت و تکریم کرنا اور اس کی نصرت و تائید کرنا فرض ہے اور جو انصاف پسند حاکم کی اہانت کرے، وہ بہت بڑا مجرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی توہین کرتا ہے۔