الادب المفرد - حدیث 347

كِتَابُ بَابُ مَنْ زَارَ قَوْمًا فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَارَ أَهْلَ بَيْتٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَطَعِمَ عِنْدَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا خَرَجَ أَمَرَ بِمَكَانٍ مِنَ الْبَيْتِ، فَنُضِحَ لَهُ عَلَى بِسَاطٍ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَدَعَا لَهُمْ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 347

کتاب جس کی زیارت کے لیے جائے اس کے پاس کھانا کھانے کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک گھرانے کو شرف زیارت بخشا تو ان کے ہاں کھانا کھایا۔ جب واپس تشریف لانے لگے تو گھر میں ایک جگہ کے بارے (صاف کرنے کا)حکم دیا۔ چنانچہ ایک چٹائی پر چھینٹے مارکر اسے آپ کے لیے بچھا دیا گیا۔ آپ نے اس پر نماز پڑھی اور ان کے لیے دعا کی۔
تشریح : (۱)بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھانا تناول فرمایا اور ان کے لیے دعا کی جس سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو کھانا پیش کرنا چاہیے اس سے محبت بڑھتی ہے۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ تکلف نہ کرے بلکہ کھانا تناول کرے۔ (۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مواقع پر کسی کے گھر جا کر نماز پڑھائی ہے:ایک انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دادی ملیکہ کا ہے۔ اس نے آپ کو کھانے کی دعوت دی آپ نے کھانا تناول فرمایا۔ بعد میں دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی۔ (بخاري:۳۸۰) اور ایک عتبان بن مالک کا ہے انہوں نے آپ سے کہا تھا کہ میری نظر کمزور ہے آپ میرے گھر آ کر نماز پڑھیں تاکہ پھر میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں۔ تو آپ تشریف لائے اور پہلے ان کو نماز پڑھائی اور اس کے بعد انہوں نے آپ اور ساتھیوں کی تواضع کی۔ (بخاري:۱۱۸۶) (۳) مہمان خصوصاً عالم دین کو چاہیے کہ جب وہ کسی کے گھر جائے اور وہ اس کی تکریم کریں تو ان کے لیے ضرور دعا کرے۔ (۴) بوقت ضرورت گھر میں نماز باجماعت پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ مفصل روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے گھر میں موجود لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب الزیادۃ:۶۰۸۰۔ (۱)بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کا تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھانا تناول فرمایا اور ان کے لیے دعا کی جس سے معلوم ہوا کہ آنے والے مہمان کو کھانا پیش کرنا چاہیے اس سے محبت بڑھتی ہے۔ مہمان کو بھی چاہیے کہ تکلف نہ کرے بلکہ کھانا تناول کرے۔ (۲) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مواقع پر کسی کے گھر جا کر نماز پڑھائی ہے:ایک انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی دادی ملیکہ کا ہے۔ اس نے آپ کو کھانے کی دعوت دی آپ نے کھانا تناول فرمایا۔ بعد میں دو رکعت نماز جماعت کے ساتھ پڑھائی۔ (بخاري:۳۸۰) اور ایک عتبان بن مالک کا ہے انہوں نے آپ سے کہا تھا کہ میری نظر کمزور ہے آپ میرے گھر آ کر نماز پڑھیں تاکہ پھر میں گھر میں نماز پڑھ لیا کروں۔ تو آپ تشریف لائے اور پہلے ان کو نماز پڑھائی اور اس کے بعد انہوں نے آپ اور ساتھیوں کی تواضع کی۔ (بخاري:۱۱۸۶) (۳) مہمان خصوصاً عالم دین کو چاہیے کہ جب وہ کسی کے گھر جائے اور وہ اس کی تکریم کریں تو ان کے لیے ضرور دعا کرے۔ (۴) بوقت ضرورت گھر میں نماز باجماعت پڑھی جاسکتی ہے کیونکہ مفصل روایت میں ذکر ہے کہ آپ نے گھر میں موجود لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔