كِتَابُ بَابُ مَنْ أَثْنَى عَلَى صَاحِبِهِ إِنْ كَانَ آمِنًا بِهِ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُلَيْحٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتِ: اسْتَأْذَنَ رَجُلٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((بِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ)) ، فَلَمَّا دَخَلَ هَشَّ لَهُ وَانْبَسَطَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا خَرَجَ الرَّجُلُ اسْتَأْذَنَ آخَرُ، قَالَ: ((نِعْمَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ)) ، فَلَمَّا دَخَلَ لَمْ يَنْبَسِطْ إِلَيْهِ كَمَا انْبَسَطَ إِلَى الْآخَرِ، وَلَمْ يَهِشَّ إِلَيْهِ كَمَا هَشَّ لِلْآخَرِ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتُ لِفُلَانٍ مَا قُلْتَ ثُمَّ هَشَشْتَ إِلَيْهِ، وَقُلْتَ لِفُلَانٍ مَا قُلْتَ وَلَمْ أَرَكَ صَنَعْتَ مِثْلَهُ؟ قَالَ: ((يَا عَائِشَةُ، إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ مَنِ اتُّقِيَ لِفُحْشِهِ))
کتاب
جس کے فتنے میں پڑنے کا ڈر نہ ہو اس کی تعریف کرنی جائز ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آنے والا قبیلے کا برا فرد ہے۔‘‘ لیکن جب وہ داخل ہوا تو آپ اسے بڑے تپاک اور خندہ پیشانی سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو ایک دوسرے شخص نے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا:’’قبیلے کا اچھا آدمی آیا ہے۔‘‘ جب وہ داخل ہوا تو آپ اس سے پہلے شخص کی طرح خوشی سے نہ ملے اور نہ اس طرح تپاک سے اس کا استقبال کیا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں کو یہ یہ کہا اور پھر اسے تپاک سے ملے بھی اور فلاں کی آپ نے اچھی تعریف کی لیکن اس کے ساتھ اس طرح تپاک سے پیش نہیں آئے جس طرح پہلے سے ملے تھے؟ آپ نے فرمایا:’’اے عائشہ! لوگوں میں سے بدترین وہ ہے کہ جس کے فحش سے بچنے کے لیے اس کی تکریم کی جائے۔‘‘
تشریح :
اس حدیث میں دوسرے آدمی کا ذکر صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں صرف پہلے آدمی کا ذکر ہے۔ مزید فوائد حدیث:۱۳۱۱ کے تحت آئیں گے۔
تخریج :
ضعیف دون قصة الرجل الأول فإنها صحیحة مع قوله (یا عائشة):أخرجه أحمد:۲۵۲۵۴۔ وابن وهب في الجامع:۴۳۷۔ والقضاعي في مسندہ:۱۱۲۴۔ وسیاتي:۱۳۱۱۔ وانظر الصحیحة:۱۰۴۹۔
اس حدیث میں دوسرے آدمی کا ذکر صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ سند ضعیف ہے۔ بخاری و مسلم میں صرف پہلے آدمی کا ذکر ہے۔ مزید فوائد حدیث:۱۳۱۱ کے تحت آئیں گے۔