كِتَابُ بَابُ مَا جَاءَ فِي التَّمَادُحِ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَثْنَى عَلَيْهِ رَجُلٌ خَيْرًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْحَكَ قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ، يَقُولُهُ مِرَارًا، إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا لَا مَحَالَةَ فَلْيَقُلْ: أَحْسَبُ كَذَا وَكَذَا - إِنْ كَانَ يَرَى أَنَّهُ كَذَلِكَ - وَحَسِيبُهُ اللَّهُ، وَلَا يُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا "
کتاب
ایک دوسرے کی بے جا تعریف کی ممانعت
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا ذکر ہوا تو ایک دوسرے آدمی نے اس کی (مبالغہ آمیز)تعریف کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’افسوس ہے تجھے! تونے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔‘‘ آپ بار بار یہ بات دہراتے رہے (پھر فرمایا:)’’اگر کوئی ضرور کسی کی تعریف کرنا چاہتا ہے تو وہ یوں کہے:میرے خیال میں وہ ایسا ایسا ہے، اگر واقعی وہ اسے ایسا سمجھتا ہے تو (ان الفاظ میں تعریف کر دے)ساتھ یوں بھی کہے:صحیح علم اللہ تعالیٰ کو ہے۔ وہی حساب لینے والا ہے اور وہ اللہ کے مقابلے میں کسی کا تزکیہ نہ کرے۔‘‘
تشریح :
(۱)تمادح ایک دوسرے کی ایسی تعریف کو کہتے ہیں جس میں مبالغہ آرائی ہو مبالغہ آرائی پر مبنی اور جھوٹی تعریف کرنی ناجائز اور حرام ہے۔
(۲) کسی کی مبنی پر حقیقت تعریف کرنی جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کے منہ پر نہ کی جائے۔
(۳) کسی شخص کے بارے میں اگر خدشہ ہوکہ تعریف کرنے سے اس میں تکبر آجائے گا یا وہ بے عمل ہو جائے گا تو اس کی موجودگی یا عدم موجودگی میں تعریف نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
(۴) کسی شخص کے بارے میں خود پسندی یا تکبر کا ڈر نہ ہو تو اس کی تعریف کرنی جائز ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کئی مواقع پر تعریف فرمائی۔
(۵) تعریف کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ میرے نزدیک وہ اچھا ہے، باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الشهادات باب إذا ذکی رجل رجلا کفاہ:۲۶۶۲۔ ومسلم:۳۰۰۰۔ وأبي داود:۴۸۰۵۔ وابن ماجة:۳۷۴۴۔
(۱)تمادح ایک دوسرے کی ایسی تعریف کو کہتے ہیں جس میں مبالغہ آرائی ہو مبالغہ آرائی پر مبنی اور جھوٹی تعریف کرنی ناجائز اور حرام ہے۔
(۲) کسی کی مبنی پر حقیقت تعریف کرنی جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ اس کے منہ پر نہ کی جائے۔
(۳) کسی شخص کے بارے میں اگر خدشہ ہوکہ تعریف کرنے سے اس میں تکبر آجائے گا یا وہ بے عمل ہو جائے گا تو اس کی موجودگی یا عدم موجودگی میں تعریف نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کرنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔
(۴) کسی شخص کے بارے میں خود پسندی یا تکبر کا ڈر نہ ہو تو اس کی تعریف کرنی جائز ہے جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کئی مواقع پر تعریف فرمائی۔
(۵) تعریف کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملانے کی بجائے یہ کہنا چاہیے کہ میرے نزدیک وہ اچھا ہے، باطن کا معاملہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔