كِتَابُ بَابُ الْعَيَّابِ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ قَالَ: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ، عَنْ عَامِرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَبِيرَةَ بْنُ الضَّحَّاكِ قَالَ: فِينَا نَزَلَتْ، فِي بَنِي سَلِمَةَ: ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ﴾ [الحجرات: 11] ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ مِنَّا رَجُلٌ إِلَّا لَهُ اسْمَانِ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((يَا فُلَانُ)) ، فَيَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَغْضَبُ مِنْهُ
کتاب
بہت زیادہ عیب لگانے والے کی مذمت
حضرت ابو جیرۃ بن ضحاک سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت ﴿وَلَا تَنَابَزُوا بِالْألْقَابِ﴾ ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو‘‘ ہمارے، یعنی بنو سلمہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہمارے ہر آدمی کے دو نام تھے۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو بلاتے:’’اے فلاں۔‘‘ تو وہ کہتے اللہ کے رسول وہ اس نام سے غصہ کرتا ہے۔
تشریح :
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو ایسے نام یا لقب سے پکارنا ناجائز ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہے، البتہ ایسا لقب جو کسی کی پہچان بن گیا ہو تو دوسروں کو سمجھانے کے لیے یا کسی دوسرے شخص سے تمیز کرنے کے لیے اسے اس لقب سے پکارنا جائز ہے، جیسے اَعور، (کانا)اسود، (کالا)وغیرہ۔
(۲) ایک دوسرے کے برے القاب رکھنا حرام ہے۔ اسی طرح کسی کو برے لقب سے مشہور کرنا بھی ناجائز ہے۔
تخریج :
صحیح:سنن أبي داود، الأدب، حدیث:۴۹۶۲۔ جامع الترمذي، ح:۳۲۶۸۔ وابن ماجة:۳۷۴۱۔ الصحیحة:۸۰۹۔
(۱)اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو ایسے نام یا لقب سے پکارنا ناجائز ہے جسے وہ ناپسند کرتا ہے، البتہ ایسا لقب جو کسی کی پہچان بن گیا ہو تو دوسروں کو سمجھانے کے لیے یا کسی دوسرے شخص سے تمیز کرنے کے لیے اسے اس لقب سے پکارنا جائز ہے، جیسے اَعور، (کانا)اسود، (کالا)وغیرہ۔
(۲) ایک دوسرے کے برے القاب رکھنا حرام ہے۔ اسی طرح کسی کو برے لقب سے مشہور کرنا بھی ناجائز ہے۔