كِتَابُ بَابُ الْعَيَّابِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِي يَحْيَى حَكِيمِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُولُ: لَا تَكُونُوا عُجُلًا مَذَايِيعَ بُذُرًا، فَإِنْ مِنْ وَرَائِكُمْ بَلَاءً مُبَرِّحًا مُمْلِحًا، وَأُمُورًا مُتَمَاحِلَةً رُدُحًا
کتاب
بہت زیادہ عیب لگانے والے کی مذمت
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:تم جلد باز، باتوں کو پھیلانے والے اور راز فاش کرنے والے نہ بنو کیونکہ تمہارے بعد مصیبت میں ڈالنے والی آزمائش ہوگی اور فتنوں کا ایسا طویل دور ہوگا جو انسان کو دبا کر رکھ دے گا۔
تشریح :
سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فتنے انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتے ہیں کہ انسان کوئی بات سنتا ہے تو اس کو پھیلانے میں جلد بازی سے کام لیتا ہے اور جس کے بارے میں کہی جا رہی ہوتی ہے وہ جلد بازی میں اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے اور پھر لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں اور یوں بغض و عناد سے معاشرہ جہنم کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس لیے تمہیں اس سے باز رہنا چاہیے اور ان فتنوں کی ابتدا کرنے والے نہیں بننا چاہیے۔ پھر انسان جب اس طرح کی معاشرتی جنگ میں الجھ جاتا ہے تو اس کی ساری صلاحیتیں ادھر ہی صرف ہو جاتی ہیں اور ان مشکلات سے نکلنا محال ہو جاتا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه المزي في تهذیب الکمال:۲۲؍ ۳۳۶۔ ورواه العقیلي في الضعفاء مختصراً:۴؍ ۱۳۔ قلت:ورواه ابن المبارك:۱۴۳۸۔ وأبي داود في الزهد:۱۴۶۔ عن ابن مسعود۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فتنے انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے شروع ہوتے ہیں کہ انسان کوئی بات سنتا ہے تو اس کو پھیلانے میں جلد بازی سے کام لیتا ہے اور جس کے بارے میں کہی جا رہی ہوتی ہے وہ جلد بازی میں اپنا رد عمل ظاہر کرتا ہے اور پھر لوگ ایک دوسرے کے عیبوں کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں اور یوں بغض و عناد سے معاشرہ جہنم کی تصویر بن جاتی ہے۔ اس لیے تمہیں اس سے باز رہنا چاہیے اور ان فتنوں کی ابتدا کرنے والے نہیں بننا چاہیے۔ پھر انسان جب اس طرح کی معاشرتی جنگ میں الجھ جاتا ہے تو اس کی ساری صلاحیتیں ادھر ہی صرف ہو جاتی ہیں اور ان مشکلات سے نکلنا محال ہو جاتا ہے۔