كِتَابُ بَابُ لَعْنِ الْكَافِرِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، قَالَ: ((إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَلَكِنْ بُعِثْتُ رَحْمَةً))
کتاب
کافر پر لعنت کرنے کا حکم
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا:اللہ کے رسول! مشرکین پر بد دعا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت کرنے والا بناکر مبعوث نہیں فرمایا بلکہ مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔‘‘
تشریح :
(۱)آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ وہ لوگوں کو دھتکار دے اور اپنی رحمت سے دور کر دے بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ مومنوں کے لیے تو آپ کی رحمت واضح ہے، البتہ آپ کافروں کے اس طرح رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے ان سے دنیاوی عذاب ٹل گیا اور وہ دنیا میں تباہ نہیں ہوئے۔
(۲) عام کفار اور مشرکین کے لیے یہی حکم ہے کہ ان کی ہدایت کی دعا کی جائے لیکن ظالموں اور اسلام سے دشمنی رکھنے والوں اور سرکشوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بد دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بد دعا کرنا ثابت ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة:۸۷، ۲۵۹۹۔
(۱)آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لیے مبعوث نہیں کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کروں کہ وہ لوگوں کو دھتکار دے اور اپنی رحمت سے دور کر دے بلکہ رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ مومنوں کے لیے تو آپ کی رحمت واضح ہے، البتہ آپ کافروں کے اس طرح رحمت ہیں کہ آپ کی وجہ سے ان سے دنیاوی عذاب ٹل گیا اور وہ دنیا میں تباہ نہیں ہوئے۔
(۲) عام کفار اور مشرکین کے لیے یہی حکم ہے کہ ان کی ہدایت کی دعا کی جائے لیکن ظالموں اور اسلام سے دشمنی رکھنے والوں اور سرکشوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے بد دعا کی جاسکتی ہے جیسا کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بد دعا کرنا ثابت ہے۔