الادب المفرد - حدیث 316

كِتَابُ بَابُ اللِّعَانِ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللَّعَّانِينَ لَا يَكُونُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ، وَلَا شُفَعَاءَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 316

کتاب بہت زیادہ لعنت کرنے کی مذمت حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’کثرت سے لعنت کرنے والے روز قیامت نہ گواہی دے سکیں گے اور نہ شفاعت کرنے کے حق دار ہوں گے۔‘‘
تشریح : (۱)لعنت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بارے میں یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ مومن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کے لیے اس طرح کی دعا کرے کیونکہ مسلمان تو ایک دوسرے پر رحم کرنے والا اور نیکی میں تعاون کرنے والا ہوتا ہے اور مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے۔ اور اپنے لیے کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت سے دوری نہیں چاہتا۔ (۲) روز قیامت اہل ایمان اس بات کی گواہی دیں گے کہ پہلے انبیاء اور رسولوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گواہی قبول فرمائے گا۔ یہ امت محمدیہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہوگا لیکن کثرت سے لعن طعن کرنے والا اس اعزاز سے محروم رہے گا اور اسے اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ گواہی دے۔ (۳) قیامت والے دن انبیاء، صدیقین، قرآن، فرشتوں وغیرہ کے علاوہ مومن بھی اپنے ان مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے جو کسی گناہ کی وجہ سے دوزخ میں چلے گئے، أعاذنا اللہ منہ۔ اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول فرما کر ان کی عزت افزائی فرمائے گا لیکن دنیا میں مسلمان پر کثرت سے لعنت کرنے والا اگر جنت میں چلا گیا تو بھی کسی کی سفارش نہیں کرسکے گا۔ گویا اسے یہ باور کروایا جائے گا کہ دنیا میں تو لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری کی دعائیں کرتا تھا تو اب تجھے اس کی رحمت طلب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب البر والصلة والأدب:۸۵، ۸۶، ۲۵۹۸۔ وأبي داود:۴۹۰۷۔ (۱)لعنت کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بارے میں یہ دعا کرنا کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت سے دور کر دے۔ مومن کے شایان شان نہیں کہ وہ کسی کے لیے اس طرح کی دعا کرے کیونکہ مسلمان تو ایک دوسرے پر رحم کرنے والا اور نیکی میں تعاون کرنے والا ہوتا ہے اور مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے۔ اور اپنے لیے کوئی بھی شخص اللہ کی رحمت سے دوری نہیں چاہتا۔ (۲) روز قیامت اہل ایمان اس بات کی گواہی دیں گے کہ پہلے انبیاء اور رسولوں نے اپنی اپنی امتوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی گواہی قبول فرمائے گا۔ یہ امت محمدیہ کے لیے بہت بڑا اعزاز ہوگا لیکن کثرت سے لعن طعن کرنے والا اس اعزاز سے محروم رہے گا اور اسے اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ گواہی دے۔ (۳) قیامت والے دن انبیاء، صدیقین، قرآن، فرشتوں وغیرہ کے علاوہ مومن بھی اپنے ان مسلمان بھائیوں کی سفارش کریں گے جو کسی گناہ کی وجہ سے دوزخ میں چلے گئے، أعاذنا اللہ منہ۔ اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت قبول فرما کر ان کی عزت افزائی فرمائے گا لیکن دنیا میں مسلمان پر کثرت سے لعنت کرنے والا اگر جنت میں چلا گیا تو بھی کسی کی سفارش نہیں کرسکے گا۔ گویا اسے یہ باور کروایا جائے گا کہ دنیا میں تو لوگوں کے لیے اللہ کی رحمت سے دوری کی دعائیں کرتا تھا تو اب تجھے اس کی رحمت طلب کرنے کی اجازت نہیں ہے۔