الادب المفرد - حدیث 309

كِتَابُ بَابُ لَيْسَ الْمُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي الْفُدَيْكِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: مَا سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ لَاعِنًا أَحَدًا قَطُّ، لَيْسَ إِنْسَانًا. وَكَانَ سَالِمٌ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 309

کتاب مومن بہت طعن کرنے والا نہیں ہوتا حضرت سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سوائے ایک آدمی کے کسی پر کبھی لعنت کرتے نہیں سنا۔ اور سالم کہا کرتے تھے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مومن کے شایان شان نہیں کہ کثرت سے لعن طعن کرے۔‘‘
تشریح : (۱)کسی کو مذمت یا غیبت وغیرہ کے ذریعے سے بے عزت کرنا طعن کہلاتا ہے۔ کبھی ایسا ممکن ہے کہ مومن بندہ بھی غصے میں کسی پر طعن کر دے لیکن یہ اس کی عادت نہیں بن سکتی۔ اگر کسی کا یہ وصف ظاہر ہے تو اسے اپنے بارے میں نفاق سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے جو انسان کو منافق بنا دیتا ہے۔ (۲) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع رسول میں ضرب المثل تھے۔ ہر معاملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض لازم سمجھتے۔ لوگوں پر لعن طعن کے حوالے سے بھی وہ حد درجہ محتاط تھے کہ صرف ایک بار ان سے غصے میں یہ فعل سرزد ہوا ورنہ انہوں نے کسی پر لعن طعن نہیں کیا۔ وہ اس طرح کہ اپنے ایک خادم پر ناراض ہوئے تو اسے غصے میں کہا کہ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ لیکن اس پر بھی ندامت کی اور بیہقی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ پھر اس غلام کو آزاد کر دیا۔(الصحیحة للألباني:۶؍۱۳۵، حدیث:۲۶۳۶)
تخریج : حسن صحیح:أخرجه المرفوع منه الترمذي، کتاب البر والصلة، باب ماجاء في اللعن والطعن:۲۰۱۹۔ وأخرجه بتمامه الرویاني في مسندہ:۱۴۴۵۔ والحاکم:۱؍ ۱۱۰۔ والبیهقي في الشعب الایمان:۴۷۹۲۔ انظر الصحیحة:۲۶۳۶۔ (۱)کسی کو مذمت یا غیبت وغیرہ کے ذریعے سے بے عزت کرنا طعن کہلاتا ہے۔ کبھی ایسا ممکن ہے کہ مومن بندہ بھی غصے میں کسی پر طعن کر دے لیکن یہ اس کی عادت نہیں بن سکتی۔ اگر کسی کا یہ وصف ظاہر ہے تو اسے اپنے بارے میں نفاق سے ڈرنا چاہیے کیونکہ یہ ایسا کبیرہ گناہ ہے جو انسان کو منافق بنا دیتا ہے۔ (۲) سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع رسول میں ضرب المثل تھے۔ ہر معاملے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض لازم سمجھتے۔ لوگوں پر لعن طعن کے حوالے سے بھی وہ حد درجہ محتاط تھے کہ صرف ایک بار ان سے غصے میں یہ فعل سرزد ہوا ورنہ انہوں نے کسی پر لعن طعن نہیں کیا۔ وہ اس طرح کہ اپنے ایک خادم پر ناراض ہوئے تو اسے غصے میں کہا کہ تجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔ لیکن اس پر بھی ندامت کی اور بیہقی وغیرہ کی روایت میں ہے کہ پھر اس غلام کو آزاد کر دیا۔(الصحیحة للألباني:۶؍۱۳۵، حدیث:۲۶۳۶)