الادب المفرد - حدیث 308

كِتَابُ بَابُ مَنْ دَعَا اللَّهَ أَنْ يُحَسِّنَ خُلُقَهُ حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مَا كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ، تَقْرَؤُونَ سُورَةَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَتِ: اقْرَأْ: ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ﴾ [المؤمنون: 1] ، قَالَ يَزِيدُ: فَقَرَأْتُ: ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ﴾ [المؤمنون: 1] إِلَى ﴿لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ﴾ [المؤمنون: 5] ، قَالَتْ: هَكَذَا كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 308

کتاب اللہ تعالیٰ سے اچھے اخلاق کی دعا کرنے کا بیان یزید بن بابنوس سے روایت ہے کہ ہم ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی:ام المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا:آپ کا اخلاق قرآن تھا۔ تم نے سورت مومنون پڑھی ہے؟ پھر فرمایا:پڑھو! ’’یقیناً مومن فلاح پاگئے....‘‘ یزید کہتے ہیں میں نے پڑھا:مومن فلاح پاگئے....اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ تک۔ انہوں نے فرمایا:یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق تھا۔
تشریح : (۱)اس روایت کی سند یزید کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم اس کا پہلا حصہ (کَانَ خُلُقُہ الْقُرآنَ)ایک دوسری سند سے صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:۷۴۶) (۲) ’’آپ کا اخلاق قرآن تھا‘‘ اس کے کئی مفہوم علماء نے بیان کیے ہیں: ٭ قرآن نے جن اخلاق حمیدہ کا ذکر کیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے متصف تھے، یعنی قرآن نے جن اعلیٰ اوصاف کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے آپ ان سے متصف تھے۔ ٭ آپ قرآن کے او امر کو بجا لانے والے اور اس کی منہیات سے رکنے والے تھے۔ گویا کوئی شخص تلاوت کلام کے دوران اس کے او امر و نواہی پر غور کرے، ان کے عامل کا جو نقشہ ذہن میں بنے وہ آپ کا اخلاق ہے۔ ٭ آپ کے اخلاق کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنَّكَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴) ’’آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔‘‘ (۳) صحابہ کرام امہات المومنین سے علمی استفادہ کرتے تھے جس سے معلوم ہوا کہ کسی عالمہ سے کوئی مرد بھی پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ شرعی حدود کی پاسداری کی جائے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ (۴) اس سے قرآن کی قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے، نیز یہ کہ وہ علم و عمل کے لیے نازل ہوا ہے کہ اس کے او امر و نواہی کے مطابق خود کو ڈھالا جائے۔ اس لیے ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود کو قرآن کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ (۵) حدیث کا باب سے تعلق اس طرح ہے کہ آپ نے حسن اخلاق کی دعا کی جیسا کہ دیگر روایات میں مروی ہے:((اللّٰهم کما حَسَّنْتَ خَلْقی فحَسِّن خُلُقِی))(الارواء حدیث:۷۴)تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کا اخلاق قرآن مجید بنا دیا۔ اس لیے جو آپ کی اقتدا کرنا چاہتا ہے اسے حسن اخلاق کی دعا کرنی چاہیے اور عملی کوشش کرنی چاہیے۔
تخریج : ضعیف:رواه النسائي في الکبریٰ:۱۰؍ ۱۹۳۔ والحاکم:۲؍ ۴۲۶۔ والبیهقي في الدلائل:۱؍ ۳۰۹۔ وأبو الشیخ في أخلاق النبي صلى اللّٰه عليه وسلم:۱؍ ۱۲۴۔ (۱)اس روایت کی سند یزید کی وجہ سے ضعیف ہے، تاہم اس کا پہلا حصہ (کَانَ خُلُقُہ الْقُرآنَ)ایک دوسری سند سے صحیح مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث:۷۴۶) (۲) ’’آپ کا اخلاق قرآن تھا‘‘ اس کے کئی مفہوم علماء نے بیان کیے ہیں: ٭ قرآن نے جن اخلاق حمیدہ کا ذکر کیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے متصف تھے، یعنی قرآن نے جن اعلیٰ اوصاف کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے آپ ان سے متصف تھے۔ ٭ آپ قرآن کے او امر کو بجا لانے والے اور اس کی منہیات سے رکنے والے تھے۔ گویا کوئی شخص تلاوت کلام کے دوران اس کے او امر و نواہی پر غور کرے، ان کے عامل کا جو نقشہ ذہن میں بنے وہ آپ کا اخلاق ہے۔ ٭ آپ کے اخلاق کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنَّكَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم:۴) ’’آپ عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔‘‘ (۳) صحابہ کرام امہات المومنین سے علمی استفادہ کرتے تھے جس سے معلوم ہوا کہ کسی عالمہ سے کوئی مرد بھی پڑھ سکتا ہے بشرطیکہ شرعی حدود کی پاسداری کی جائے اور فتنے کا اندیشہ نہ ہو۔ (۴) اس سے قرآن کی قدر و منزلت کا پتہ چلتا ہے، نیز یہ کہ وہ علم و عمل کے لیے نازل ہوا ہے کہ اس کے او امر و نواہی کے مطابق خود کو ڈھالا جائے۔ اس لیے ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خود کو قرآن کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔ (۵) حدیث کا باب سے تعلق اس طرح ہے کہ آپ نے حسن اخلاق کی دعا کی جیسا کہ دیگر روایات میں مروی ہے:((اللّٰهم کما حَسَّنْتَ خَلْقی فحَسِّن خُلُقِی))(الارواء حدیث:۷۴)تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور آپ کا اخلاق قرآن مجید بنا دیا۔ اس لیے جو آپ کی اقتدا کرنا چاہتا ہے اسے حسن اخلاق کی دعا کرنی چاہیے اور عملی کوشش کرنی چاہیے۔