الادب المفرد - حدیث 305

كِتَابُ بَابُ مَا يَجِبُ مِنْ عَوْنِ الْمَلْهُوفِ حَدَّثَنَا الْأُوَيْسِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ((إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ)) ، قَالَ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((أَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا)) ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ بَعْضَ الْعَمَلِ؟ قَالَ: ((تُعِينُ ضَائِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ)) ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ؟ قَالَ: ((تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقَهَا عَلَى نَفْسِكَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 305

کتاب لاچار اور مجبور انسان کی مدد کرنا واجب ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا:کون سے اعمال سب سے بہتر ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ سائل نے کہا:کون سا غلام آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:’’جو زیادہ قیمتی ہو اور مالکوں کی نظر میں سب سے اچھا ہو۔‘‘ سائل نے کہا:اگر میں بعض اعمال نہ کرسکوں تو آپ کے خیال میں کیا کرنا چاہیے؟ آپ نے فرمایا:’’تم کسی ایسے شخص کی معاونت کرو جو ضائع ہو رہا ہو یا تو کسی بے وقوف کا کام کر دے۔‘‘ سائل نے کہا:اگر میں یہ کام کرنے سے بھی عاجز ہوں تو؟ آپ نے فرمایا:’’لوگوں کو تکلیف دینے سے باز رہو تو یہ بھی صدقہ ہے جو تو اپنی جان پر صدقہ کرے گا۔‘‘
تشریح : خود غرضی اس معاشرے کا سب سے مہلک مرض ہے۔ ہر شخص کی سوچ ذاتی فائدے تک محدود ہے جو معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔دنیا میں وہ معاشرے اور افراد کبھی چین سے زندہ نہیں رہتے جنہوں نے صرف اپنے لیے جینا سیکھا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ تعلیم دی ہے کہ دوسروں کے کام آنا سیکھو۔ اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کے بعد یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔ وہ مالی معاونت ہو یا ہو جسمانی۔ ہم دونوں حوالے سے مجموعی طور پر خود غرض ہوچکے ہیں۔ مال دار فرض زکاۃ دے کر ....اور وہ بھی بہت تھوڑے لوگ ہیں ....یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے حالانکہ بجھتے چولہوں کو جلانا اور بے سہارا، مجبور اور لاچار لوگوں کی مدد کرنا بھی فرض ہے اور اس میں کوتاہی بھی قابل مؤاخذہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث:۲۲۰ کے فوائد۔
تخریج : صحیح:انظر الحدیث:۲۲۰۔ خود غرضی اس معاشرے کا سب سے مہلک مرض ہے۔ ہر شخص کی سوچ ذاتی فائدے تک محدود ہے جو معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔دنیا میں وہ معاشرے اور افراد کبھی چین سے زندہ نہیں رہتے جنہوں نے صرف اپنے لیے جینا سیکھا ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ تعلیم دی ہے کہ دوسروں کے کام آنا سیکھو۔ اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی کے بعد یہ سب سے بڑی نیکی ہے۔ وہ مالی معاونت ہو یا ہو جسمانی۔ ہم دونوں حوالے سے مجموعی طور پر خود غرض ہوچکے ہیں۔ مال دار فرض زکاۃ دے کر ....اور وہ بھی بہت تھوڑے لوگ ہیں ....یہ سمجھتا ہے کہ اس نے اپنا فرض پورا کر دیا ہے حالانکہ بجھتے چولہوں کو جلانا اور بے سہارا، مجبور اور لاچار لوگوں کی مدد کرنا بھی فرض ہے اور اس میں کوتاہی بھی قابل مؤاخذہ ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث:۲۲۰ کے فوائد۔