الادب المفرد - حدیث 300

كِتَابُ بَابُ مَنْ أَصْبَحَ آمِنًا فِي سِرْبِهِ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي شُمَيْلَةَ الْأَنْصَارِيِّ الْقُبَائِيِّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَنْ أَصْبَحَ آمِنًا فِي سِرْبِهِ، مُعَافًى فِي جَسَدِهِ، عِنْدَهُ طَعَامُ يَوْمِهِ، فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 300

کتاب جو شخص اپنے نفس اور اہل و عیال میں امن کی حالت میں صبح کرے حضرت عبیداللہ بن محصن انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جو شخص صبح اس حال میں کرے کہ وہ اپنے اور اہل و عیال کے بارے میں بے خوف ہو، جسمانی طور پر عافیت میں ہو، ایک دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو وہ ایسے ہے جیسے وہ ساری دنیا کا مالک ہے۔‘‘
تشریح : (۱)انسان کی ساری محنت اور کوشش کا محور روٹی کپڑا اور مکان ہے اور مزید یہ ہے کہ اسے کسی قسم کا خوف نہ ہو۔ کوئی شخص ایک وقت میں دو ٹائم کا کھانا نہیں کھاسکتا، ایک سے زیادہ جوڑا زیب تن نہیں کرسکتا اور ایک ہی چارپائی یا بیڈ پر سو سکتا ہے۔ یہ انسان کی کل کائنات ہے لیکن وہ نہ جانے کیا کچھ کرتا ہے اور لامتناہی زندگی سے سرمو انحراف کرتا رہتا ہے حالانکہ ان کٹھن مراحل سے گزرنے کے لیے زیادہ سازو سامان کی ضرورت ہے۔ (۲) جب بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور انسان مصائب و آلام سے بھی بے خطر ہو تو اسے اللہ کا شکر بجا لانا چاہے کیونکہ مالی اور جسمانی عافیت کے ساتھ ضرورت پوری ہو جائے تو دنیا کی تمام نعمتیں انسان کو حاصل ہوگئیں۔ کیونکہ بہت مال والا انسان بھی ایک روز میں اتنا کچھ ہی استعمال کرتا ہے۔ (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زہد و قناعت کا درس دیا ہے کہ اگر بنیادی ضرورت پوری ہو تو انسان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ خوب سے خوب تر کا کوئی کنارہ نہیں اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه البخاری في التاریخ الکبیر:۵؍ ۳۷۲۔ بالإسناد نفسه والترمذي:۲۳۴۶۔ وابن ماجة:۴۱۴۱۔ الصحیحة:۱۷۴۔ (۱)انسان کی ساری محنت اور کوشش کا محور روٹی کپڑا اور مکان ہے اور مزید یہ ہے کہ اسے کسی قسم کا خوف نہ ہو۔ کوئی شخص ایک وقت میں دو ٹائم کا کھانا نہیں کھاسکتا، ایک سے زیادہ جوڑا زیب تن نہیں کرسکتا اور ایک ہی چارپائی یا بیڈ پر سو سکتا ہے۔ یہ انسان کی کل کائنات ہے لیکن وہ نہ جانے کیا کچھ کرتا ہے اور لامتناہی زندگی سے سرمو انحراف کرتا رہتا ہے حالانکہ ان کٹھن مراحل سے گزرنے کے لیے زیادہ سازو سامان کی ضرورت ہے۔ (۲) جب بنیادی ضرورتیں پوری ہوں اور انسان مصائب و آلام سے بھی بے خطر ہو تو اسے اللہ کا شکر بجا لانا چاہے کیونکہ مالی اور جسمانی عافیت کے ساتھ ضرورت پوری ہو جائے تو دنیا کی تمام نعمتیں انسان کو حاصل ہوگئیں۔ کیونکہ بہت مال والا انسان بھی ایک روز میں اتنا کچھ ہی استعمال کرتا ہے۔ (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زہد و قناعت کا درس دیا ہے کہ اگر بنیادی ضرورت پوری ہو تو انسان کو اللہ کا شکر بجا لانا چاہیے۔ خوب سے خوب تر کا کوئی کنارہ نہیں اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھرتی ہے۔