كِتَابُ بَابُ بِرِّ الْأُمِّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) ، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) ، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أُمَّكَ)) ، قُلْتُ: مَنْ أَبَرُّ؟ قَالَ: ((أَبَاكَ، ثُمَّ الْأَقْرَبَ فَالْأَقْرَبَ))
کتاب
والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا بیان
حضرت بہز بن حکیم اپنے باپ کے واسطے سے اپنے دادا (معاویہ بن حیدہ)سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے۔‘‘ میں نے کہا: (پھر)کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے۔‘‘ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنی ماں سے۔‘‘ میں نے کہا: پھر کس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’اپنے باپ سے، پھر اس کے بعد جو تیرا زیادہ قریبی رشتہ دار ہو پھر جو اس کے بعد زیادہ قریبی ہو۔‘‘
تشریح :
۱۔ انسان پر مالی اور بدنی دو قسم کے حقوق واجب ہوتے ہیں، دونوں قسم کے حقوق میں والدین کا درجہ سب سے پہلے ہے اور والدین میں بھی حسن سلوک کی زیادہ مستحق انسان کی ماں ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار پوچھنے پر تین مرتبہ بتایا کہ ماں حسن سلوک کی دنیا میں سب سے زیادہ مستحق ہے اور چوتھی مرتبہ آپ نے باپ کا ذکر کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں فطرتاً کمزور اور نرم دل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ ماں کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
۲۔ ماں کا تین بار اور والد کا ایک بار ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تین قسم کی مشقتیں ایسی ہیں جنھیں ماں تنہا برداشت کرتی ہے، یعنی حمل، جننے اور دودھ پلانے کی مشقت، اور بعد میں تربیت میں والد بھی شریک ہوتا ہے اس لیے چوتھی بار اس کا تذکرہ کیا ہے۔
۳۔ ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماں کا معاملہ چار دیواری تک محدود ہوتا ہے جبکہ باپ کے معاملے سے لوگ بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ انسان لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے والد کے ساتھ تو بسااوقات اچھا سلوک کرتا ہے لیکن والدہ اس سے محروم رہتی ہے۔
۴۔ ماں چونکہ کمزور خلقت ہے اس لیے ممکن ہے وہ نافرمانی اور برا سلوک برداشت نہ کرسکے اور اولاد کے لیے اس کی زبان سے بددعا نکل جائے اور انسان اس بددعا کی وجہ سے تباہ ہوجائے۔
۵۔ حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جتنا زیادہ قریبی ہے اس کا زیادہ حق ہے، اس لیے مراتب کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ اکثر لوگ دوستوں اور غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتے ہیں لیکن رشتے داروں اور والدین کے ساتھ ان کا رویہ درست نہیں ہوتا ہے۔ ایسا فعل بھی محل نظر ہے۔
۶۔ ہمارے معاشرے میں اگر میاں بیوی میں ناراضی ہوجائے اور معاملہ طلاق تک پہنچ جائے تو اولاد اکثر بگڑ جاتی ہے۔ ماں بچوں کو باپ کی نافرمانی کا حکم دیتی ہے اور باپ ماں کی برائیاں بیان کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اولاد کو کیا کرنا چاہیے، یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کا جواب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں مل جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں انسان ماں اور باپ دونوں کو ان کے حقوق دیتا رہے اور ماں کے ساتھ حسن سلوک کو مقدم رکھے اور عزت و تکریم میں باپ کو فوقیت دے۔ ماں کی وجہ سے باپ اور والد کی وجہ سے ماں کے ساتھ ہرگز بدسلوکی نہ کرے۔
تخریج :
حسن۔ الارواء: ۲۲۳۲، ۸۲۹۔ الترمذي، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی بر الوالدین، رقم: ۱۸۹۷۔
۱۔ انسان پر مالی اور بدنی دو قسم کے حقوق واجب ہوتے ہیں، دونوں قسم کے حقوق میں والدین کا درجہ سب سے پہلے ہے اور والدین میں بھی حسن سلوک کی زیادہ مستحق انسان کی ماں ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار پوچھنے پر تین مرتبہ بتایا کہ ماں حسن سلوک کی دنیا میں سب سے زیادہ مستحق ہے اور چوتھی مرتبہ آپ نے باپ کا ذکر کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں فطرتاً کمزور اور نرم دل ہوتی ہے جس کی وجہ سے اکثر لوگ ماں کی نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
۲۔ ماں کا تین بار اور والد کا ایک بار ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تین قسم کی مشقتیں ایسی ہیں جنھیں ماں تنہا برداشت کرتی ہے، یعنی حمل، جننے اور دودھ پلانے کی مشقت، اور بعد میں تربیت میں والد بھی شریک ہوتا ہے اس لیے چوتھی بار اس کا تذکرہ کیا ہے۔
۳۔ ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ماں کا معاملہ چار دیواری تک محدود ہوتا ہے جبکہ باپ کے معاملے سے لوگ بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ انسان لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے والد کے ساتھ تو بسااوقات اچھا سلوک کرتا ہے لیکن والدہ اس سے محروم رہتی ہے۔
۴۔ ماں چونکہ کمزور خلقت ہے اس لیے ممکن ہے وہ نافرمانی اور برا سلوک برداشت نہ کرسکے اور اولاد کے لیے اس کی زبان سے بددعا نکل جائے اور انسان اس بددعا کی وجہ سے تباہ ہوجائے۔
۵۔ حدیث کے آخری حصے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو جتنا زیادہ قریبی ہے اس کا زیادہ حق ہے، اس لیے مراتب کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ اکثر لوگ دوستوں اور غیروں کے ساتھ تو اچھا سلوک کرتے ہیں لیکن رشتے داروں اور والدین کے ساتھ ان کا رویہ درست نہیں ہوتا ہے۔ ایسا فعل بھی محل نظر ہے۔
۶۔ ہمارے معاشرے میں اگر میاں بیوی میں ناراضی ہوجائے اور معاملہ طلاق تک پہنچ جائے تو اولاد اکثر بگڑ جاتی ہے۔ ماں بچوں کو باپ کی نافرمانی کا حکم دیتی ہے اور باپ ماں کی برائیاں بیان کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اولاد کو کیا کرنا چاہیے، یہ ایک نہایت اہم سوال ہے جس کا جواب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں مل جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں انسان ماں اور باپ دونوں کو ان کے حقوق دیتا رہے اور ماں کے ساتھ حسن سلوک کو مقدم رکھے اور عزت و تکریم میں باپ کو فوقیت دے۔ ماں کی وجہ سے باپ اور والد کی وجہ سے ماں کے ساتھ ہرگز بدسلوکی نہ کرے۔