الادب المفرد - حدیث 299

كِتَابُ بَابُ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ عَلَيَّ ثِيَابِي وَسِلَاحِي، ثُمَّ آتِيهِ، فَفَعَلْتُ فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ يَتَوَضَّأُ، فَصَعَّدَ إِلَيَّ الْبَصَرَ ثُمَّ طَأْطَأَ، ثُمَّ قَالَ: ((يَا عَمْرُو، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَكَ عَلَى جَيْشٍ فَيُغْنِمُكَ اللَّهُ، وَأَرْغَبُ لَكَ رَغْبَةً مِنَ الْمَالِ صَالِحَةً)) ، قُلْتُ: إِنِّي لَمْ أُسْلِمْ رَغْبَةً فِي الْمَالِ، إِنَّمَا أَسْلَمْتُ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ فَأَكُونُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((يَا عَمْرُو، نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحِ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 299

کتاب اچھا مال اچھے آدمی کے لیے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ جنگی لباس پہن کر اور اسلحہ لگا کر آپ کے پاس آؤ۔ چنانچہ میں نے ایسے ہی کیا۔ جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ وضو کر رہے تھے۔ آپ نے مجھے نظر اٹھا کر دیکھا، اور سر جھکا لیا۔ پھر فرمایا:’’اے عمرو! میں چاہتا ہوں کہ تجھے ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجوں اور اللہ تعالیٰ تجھے غنیمت عطا کرے۔ میں تیرے لیے اچھے مال کی رغبت رکھتا ہوں۔‘‘ میں نے عرض کیا:میں مال کی غرض سے اسلام نہیں لایا۔ میں تو صرف دین اسلام کی چاہت رکھتے ہوئے اسلام لایا ہوں تاکہ اللہ کے رسول کا ساتھ نصیب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اے عمرو! اچھا مال نیک آدمی کے لیے اچھی چیز ہے۔‘‘
تشریح : (۱)جنگی لباس اور اسلحہ وغیرہ کا استعمال توکل کے منافي نہیں ہے۔ اسی طرح کسی متوقع بیماری یا مصیبت سے بچاؤ کی تدابیر کی جائیں تو جائز ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اسلحہ لگا کر آنے کا حکم دیا تھا۔ (۲) مال غنیمت عمدہ اور پاکیزہ مال ہے اور اس کی تمنا کرنا جائز ہے۔ (۳) بغیر لالچ اور حرص کے اگر مال مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ وہ بابرکت مال ہے، تاہم اسلام، جہاد اور دینی امور سر انجام دینے میں اگر مقصد صرف مال کا حصول یا دیگر مادی فوائد ہوں تو وہ تباہ کن ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مال بڑا میٹھا ہے۔ جس نے اس کو جائز طریقے سے کمایا اور اس کے جائز مصارف میں خرچ کیا تو یہ بہت اچھا معاون ہے اور جس نے اسے ناحق لیا وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔ یعنی استغناء نفس ہو اور انسان مال کا حریص اور لالچی نہ ہو تو مال کمانا یا رکھنا جائز ہے۔ (۴) اس حدیث سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ وہ صادق الاسلام تھے۔ کسی دنیاوی غرض کی خاطر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا جیسا کہ بعض بدطینت افراد کا نظریہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ دنیا سے اسی طرح بے نیاز تھے۔ وہ فاقوں میں بھی شکوہ زبان پر نہ لاتے تھے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۷۸۰۲۔ وأبي یعلی:۷۳۳۶۔ وابن حبان:۳۲۱۰۔ والحاکم:۲۰؍ ۲۳۶۔ والطبراني في الأوسط:۳۲۱۳۔ (۱)جنگی لباس اور اسلحہ وغیرہ کا استعمال توکل کے منافي نہیں ہے۔ اسی طرح کسی متوقع بیماری یا مصیبت سے بچاؤ کی تدابیر کی جائیں تو جائز ہیں جیسا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اسلحہ لگا کر آنے کا حکم دیا تھا۔ (۲) مال غنیمت عمدہ اور پاکیزہ مال ہے اور اس کی تمنا کرنا جائز ہے۔ (۳) بغیر لالچ اور حرص کے اگر مال مل جائے تو اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں بلکہ وہ بابرکت مال ہے، تاہم اسلام، جہاد اور دینی امور سر انجام دینے میں اگر مقصد صرف مال کا حصول یا دیگر مادی فوائد ہوں تو وہ تباہ کن ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ مال بڑا میٹھا ہے۔ جس نے اس کو جائز طریقے سے کمایا اور اس کے جائز مصارف میں خرچ کیا تو یہ بہت اچھا معاون ہے اور جس نے اسے ناحق لیا وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا۔ یعنی استغناء نفس ہو اور انسان مال کا حریص اور لالچی نہ ہو تو مال کمانا یا رکھنا جائز ہے۔ (۴) اس حدیث سے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ وہ صادق الاسلام تھے۔ کسی دنیاوی غرض کی خاطر انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا جیسا کہ بعض بدطینت افراد کا نظریہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ دنیا سے اسی طرح بے نیاز تھے۔ وہ فاقوں میں بھی شکوہ زبان پر نہ لاتے تھے۔