الادب المفرد - حدیث 296

كِتَابُ بَابُ الْبُخْلِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، عَنِ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ قَالَ: حَدَّثَنَا جَابِرٌ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ سَيِّدُكُمْ يَا بَنِي سَلِمَةَ؟)) قُلْنَا: جُدُّ بْنُ قَيْسٍ، عَلَى أَنَّا نُبَخِّلُهُ، قَالَ: ((وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَى مِنَ الْبُخْلِ؟ بَلْ سَيِّدُكُمْ عَمْرُو بْنُ الْجَمُوحِ)) ، وَكَانَ عَمْرٌو عَلَى أَصْنَامِهِمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يُولِمُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَزَوَّجَ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 296

کتاب بخل کی مذمت کا بیان حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بنو سلمہ! تمہارا سردار کون ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا:جد بن قیس اگرچہ ہم اسے بخیل سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:’بخل سے بڑی بھی کوئی بیماری ہے؟ بلکہ تمہارے سردار عمرو بن جموح ہیں۔‘‘ اور عمرو بن جموح زمانہ جاہلیت میں ان کے بتوں کے نگران تھے۔ بعد ازاں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم شادی کرتے تو وہ آپ کی طرف سے ولیمے کا انتظام کرتے تھے۔
تشریح : (۱)اہل عرب کے ہاں سرداری نظام رائج تھا۔ ہر قبیلے کا ایک لیڈر اور قائد ہوتا، لوگ جس کی اطاعت کرتے اور اس کے حکم سے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا خواہ وہ غلط حکم دے۔ لیکن وہ اپنا قائد اسے منتخب کرتے جو عمدہ صفات کا مالک ہوتا۔ گھٹیا اور کمینہ شخص سیادت کا اہل ہرگز نہ ہوتا جیسا کہ ہمارے ہاں ہے۔ بنو سلمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا:جد بن قیس ہے، تاہم اس میں کمزوری ہے کہ وہ بخیل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ کوئی معمولی کمزوری نہیں بلکہ بہت بڑی بیماری ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص سردار کہلانے کا اہل ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ بخیل سے کسی کی خیر خواہی کی توقع کرنا ہی بے معنی بات ہے۔ (۲) آپ نے فرمایا کہ تمہارے حقیقی سردار عمر وبن جموح ہیں۔ یہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے، بعد ازاں بدر میں شریک ہوئے اور احد میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ کیونکہ وہ سخی اور فیاض ہیں اور قائد کی بنیادی خوبیوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جود وسخا سے متصف ہو۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں کسی دوسرے سے معاونت لی جاسکتی ہے اور مکمل ولیمہ بھی کوئی دوسرا شخص کرسکتا ہے۔
تخریج : صحیح:الروض النضیر:۴۸۴۔ أخرجه بتمامه أبو الشیخ في الامثال:۹۲۔ والبیهقي في الشعب:۱۳؍ ۲۸۹۔ وأبو نعیم في معرفة الصحابة:۴؍ ۱۹۸۶۔ (۱)اہل عرب کے ہاں سرداری نظام رائج تھا۔ ہر قبیلے کا ایک لیڈر اور قائد ہوتا، لوگ جس کی اطاعت کرتے اور اس کے حکم سے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا خواہ وہ غلط حکم دے۔ لیکن وہ اپنا قائد اسے منتخب کرتے جو عمدہ صفات کا مالک ہوتا۔ گھٹیا اور کمینہ شخص سیادت کا اہل ہرگز نہ ہوتا جیسا کہ ہمارے ہاں ہے۔ بنو سلمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا:جد بن قیس ہے، تاہم اس میں کمزوری ہے کہ وہ بخیل ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہ کوئی معمولی کمزوری نہیں بلکہ بہت بڑی بیماری ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کوئی شخص سردار کہلانے کا اہل ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ بخیل سے کسی کی خیر خواہی کی توقع کرنا ہی بے معنی بات ہے۔ (۲) آپ نے فرمایا کہ تمہارے حقیقی سردار عمر وبن جموح ہیں۔ یہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے، بعد ازاں بدر میں شریک ہوئے اور احد میں شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ کیونکہ وہ سخی اور فیاض ہیں اور قائد کی بنیادی خوبیوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ جود وسخا سے متصف ہو۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ ولیمے میں کسی دوسرے سے معاونت لی جاسکتی ہے اور مکمل ولیمہ بھی کوئی دوسرا شخص کرسکتا ہے۔