الادب المفرد - حدیث 293

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ إِذَا فَقِهُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الْخَيْرِ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ رَجُلًا يُخَالِطُ النَّاسَ وَكَانَ مُوسِرًا، فَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَهُ أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُعْسِرِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَنَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ، فَتَجَاوَزَ عَنْهُ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 293

کتاب دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے حسن اخلاق حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم سے پہلے والے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کے نامہ اعمال میں اس کے سوا کوئی نیکی نہیں تھی کہ وہ لوگوں سے میل جول رکھتا تھا اور خوشحال تھا، چنانچہ وہ اپنے نوکروں چاکروں کو حکم دیتا کہ تنگ دست سے تجاوز کرو۔ اللہ عزوجل نے فرمایا:ہم اس کی نسبت اس (عفو و درگزر)کے زیادہ حق دار ہیں اس لیے اس نے اسے معاف کر دیا۔‘‘
تشریح : (۱)یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اس لیے اب اس کو حدیث کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اخلاقی اقدار شروع سے ایک جیسی ہی ہیں کہ جو کام بنی اسرائیل میں باعث نجات تھا وہ ہمارے ہاں بھی باعث مغفرت ہے۔ (۲) جو شخص موحد اور مسلمان ہے اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نیکی قبول کرکے بھی معاف کرسکتا ہے اس لیے نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ انسانوں سے درگزر کرنا اور ان کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ ایسا کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ روز قیامت نرمی کا معاملہ کرے گا۔ ایک حدیث میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((مَنْ أنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَهُ بِکُلّ یَوْمٍ صَدَقَةً قَبْلَ أنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ، فَاِذَا حَلَّ الدَّیْنُ فَأنْظَرَهُ فَلَهٗ بِکُلِ یَوْمٍ مِثْلَیْهِ صَدَقَةٌ)) ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی تو قرض کی واپسی کی مقرر تاریخ تک اسے ہر روز اتنے صدقے کا ثواب ہوگا (جتنی رقم ہے)اور ادائیگی کے وقت کے بعد جس نے مہلت دی اسے ہر روز دوگنا صدقے کا ثواب ہوگا۔‘‘ (مسند احمد:۵؍۳۵۱)
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب المساقاۃ:۳۰، ۱۵۶۱۔ والترمذي:۱۳۰۷۔ (۱)یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اس لیے اب اس کو حدیث کا درجہ حاصل ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اخلاقی اقدار شروع سے ایک جیسی ہی ہیں کہ جو کام بنی اسرائیل میں باعث نجات تھا وہ ہمارے ہاں بھی باعث مغفرت ہے۔ (۲) جو شخص موحد اور مسلمان ہے اللہ تعالیٰ اس کی کوئی نیکی قبول کرکے بھی معاف کرسکتا ہے اس لیے نیکی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ انسانوں سے درگزر کرنا اور ان کے ساتھ نرمی اور آسانی کا معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ ایسا کرنے والے انسان کے ساتھ اللہ تعالیٰ روز قیامت نرمی کا معاملہ کرے گا۔ ایک حدیث میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ((مَنْ أنْظَرَ مُعْسِرًا فَلَهُ بِکُلّ یَوْمٍ صَدَقَةً قَبْلَ أنْ یَحِلَّ الدَّیْنُ، فَاِذَا حَلَّ الدَّیْنُ فَأنْظَرَهُ فَلَهٗ بِکُلِ یَوْمٍ مِثْلَیْهِ صَدَقَةٌ)) ’’جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دی تو قرض کی واپسی کی مقرر تاریخ تک اسے ہر روز اتنے صدقے کا ثواب ہوگا (جتنی رقم ہے)اور ادائیگی کے وقت کے بعد جس نے مہلت دی اسے ہر روز دوگنا صدقے کا ثواب ہوگا۔‘‘ (مسند احمد:۵؍۳۵۱)