الادب المفرد - حدیث 292

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ إِذَا فَقِهُوا حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ، حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ، يَعْرِضُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقُرْآنَ، فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 292

کتاب دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے حسن اخلاق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات میں سب سے زیادہ سخی اس وقت ہوتے جب رمضان میں جبریل امین آپ سے ملتے اور جبریل علیہ السلام آپ کو رمضان کی ہر رات میں ملتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا دور فرماتے۔ اور جب جبریل آپ سے ملتے تو آپ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخاوت کرتے۔
تشریح : (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل ایام میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ خصوصاً رمضان میں عام دنوں سے زیادہ صدقہ کرنا چاہیے۔ (۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے:نیک و صالح لوگوں سے مل بیٹھنا، ان کی زیارت کرنا اور اگر وہ ناپسند نہ کریں تو بار بار ملنا مسنون ہے۔ (۳) سخاوت کی تعریف یہ ہے کہ جس قدر دینا ممکن ہو اور جس کو دینا ممکن ہو دے دینا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے کیونکہ آپ کا دل سب سے زیادہ سختی تھا، پھر جبریل کی ملاقات کی خوشی میں جبکہ وہ قرآن کا دور کرتے یہ خوشی دو بالا ہو جاتی اور آپ پہلے سے زیادہ سخاوت کرتے۔ اور ایسا کرنا حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تفہیم قرآن کی خصوصی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نیکی کے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ (۵) اس حدیث میں قرآن مجید کا دور کرنے اور اسے یاد کرنے کی ترغیب ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبي صلى اللّٰه عليه وسلم یکون في رمضان:۱۹۰۲۔ ومسلم:۲۳۰۸۔ والنسائي:۲۰۹۵۔ (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل ایام میں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔ خصوصاً رمضان میں عام دنوں سے زیادہ صدقہ کرنا چاہیے۔ (۲) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں فرمایا ہے:نیک و صالح لوگوں سے مل بیٹھنا، ان کی زیارت کرنا اور اگر وہ ناپسند نہ کریں تو بار بار ملنا مسنون ہے۔ (۳) سخاوت کی تعریف یہ ہے کہ جس قدر دینا ممکن ہو اور جس کو دینا ممکن ہو دے دینا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے کیونکہ آپ کا دل سب سے زیادہ سختی تھا، پھر جبریل کی ملاقات کی خوشی میں جبکہ وہ قرآن کا دور کرتے یہ خوشی دو بالا ہو جاتی اور آپ پہلے سے زیادہ سخاوت کرتے۔ اور ایسا کرنا حسن اخلاق کی دلیل ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں تفہیم قرآن کی خصوصی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نیکی کے ماحول سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکے۔ (۵) اس حدیث میں قرآن مجید کا دور کرنے اور اسے یاد کرنے کی ترغیب ہے۔