الادب المفرد - حدیث 291

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ إِذَا فَقِهُوا حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَتِ الْأَعْرَابُ، نَاسٌ كَثِيرٌ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، فَسَكَتَ النَّاسُ لَا يَتَكَلَّمُونَ غَيْرَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعَلَيْنَا حَرَجٌ فِي كَذَا وَكَذَا؟ فِي أَشْيَاءَ مِنْ أُمُورِ النَّاسِ، لَا بَأْسَ بِهَا، فَقَالَ: ((يَا عِبَادَ اللَّهِ، وَضَعَ اللَّهُ الْحَرَجَ، إِلَّا امْرَءًا اقْتَرَضَ امْرَءًا ظُلْمًا فَذَاكَ الَّذِي حَرِجَ وَهَلَكَ)) قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَتَدَاوَى؟ قَالَ: ((نَعَمْ يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، غَيْرَ دَاءٍ وَاحِدٍ)) ، قَالُوا: وَمَا هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((الْهَرَمُ))قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا خَيْرُ مَا أُعْطِيَ الْإِنْسَانُ؟ قَالَ: ((خُلُقٌ حَسَنٌ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 291

کتاب دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے حسن اخلاق حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (حج کے موقعہ پر)موجود تھا اور دیہاتی آئے۔ بہت سارے لوگ اس طرف سے اور بہت سے اس طرف سے۔ لوگ خاموش ہوگئے اور ان کے علاوہ کوئی بات نہیں کر رہا تھا۔ انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول! کیا فلاں فلاں کام کرنے میں کوئی گناہ ہے؟ انہوں نے لوگوں کے بہت سے ایسے امور کا ذکر کیا جن کے کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے حرج اور تنگی دور کر دی ہے، البتہ جس نے ظلماً کسی کا گوشت کھایا تو وہ حرج میں رہا اور ہلاک ہوا‘‘ انہوں نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسول! کیا ہم دوا استعمال کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’اے اللہ کے بندو! علاج معالجہ کراؤ بلاشبہ اللہ عزوجل نے جو بیماری نازل کی ہے اس کی دوا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری کے۔‘‘ انہوں نے کہا:اے اللہ کے رسول! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ نے فرمایا:’’بڑھاپا۔‘‘ انہوں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! انسان کو سب سے بہتر اور اچھی چیز کون سی عطا کی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا:’’اچھا اخلاق۔‘‘
تشریح : (۱)لوگوں کی خاموشی کی وجہ شاید یہ تھی کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روکا گیا تھا جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ خواہش کرتے کہ کوئی سمجھ دار دیہاتی آئے اور آپ سے سوال کرے تاکہ ہمیں دین کے مسائل معلوم ہوں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۲) (۲) یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا اور مختلف اطراف سے لوگ آرہے تھے۔ انہوں نے معاشرتی مسائل دریافت فرمائے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تنگی ختم کر دی ہے اور دین اسلام نہایت آسان ہے تاہم حرج اور ہلاکت والا کام یہ ہے کہ دوسرے کی غیبت کرکے اس کا گوشت کھایا جائے۔ اس نوعیت کا ظلم انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔ اتنے سارے دیگر گناہوں کو چھوڑ کر غیبت کا ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہے کہ غیبت تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی کی وجہ سے قطع رحمی ہوتی ہے حتی کہ غیبت قتل و غارت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ یہ چیز دیہاتوں میں اور خصوصاً اس معاشرے میں بکثرت تھی جس کی آپ نے نشان دہی فرمائی۔ (۳) دوائی استعمال کرنا بظاہر توکل کے منافي معلوم ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب دی کہ علاج معالجہ ضرور کرنا چاہیے اور بلاوجہ اذیت نہیں اٹھانی چاہیے اور آپ نے خود علاج کروایا بھی ہے جیسا کہ احد کے موقعہ پر مرہم پٹی کروائی۔ دوائی کا استعمال توکل کے منافي نہیں کیونکہ اسباب کو بروئے کار لانا عین توکل ہے۔ البتہ حرام سے علاج کروانے سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی۔ آپ نے بتایا کہ ہر مرض کا علاج اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ انسان اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو یہ اس کی کم فہمی ہے۔ تاہم کسی بیماری کا علاج دم میں ہوتا ہے اور کسی کا صدقہ و خیرات میں اور کسی کا دعا میں، لیکن ہم ان ذرائع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ (۴) آخری جملے کا تعلق ترجمۃ الباب سے ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی ملتا ہے ان سے سب سے بہتر حسن اخلاق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت جنت میں جائے گی اس لیے اپنے اخلاق و کردار کو عمدہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، کتاب الطب باب الرجل یتداوي:۳۸۵۵، ۲۰۱۵۔ والترمذي:۲۰۳۸۔ وابن ماجة:۳۴۳۶۔ انظر التعلیقات الحسان:۱؍ ۴۷۰۔ (۱)لوگوں کی خاموشی کی وجہ شاید یہ تھی کہ انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے روکا گیا تھا جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ خواہش کرتے کہ کوئی سمجھ دار دیہاتی آئے اور آپ سے سوال کرے تاکہ ہمیں دین کے مسائل معلوم ہوں۔ (صحیح مسلم، الایمان، حدیث:۱۲) (۲) یہ حجۃ الوداع کا موقع تھا اور مختلف اطراف سے لوگ آرہے تھے۔ انہوں نے معاشرتی مسائل دریافت فرمائے تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تنگی ختم کر دی ہے اور دین اسلام نہایت آسان ہے تاہم حرج اور ہلاکت والا کام یہ ہے کہ دوسرے کی غیبت کرکے اس کا گوشت کھایا جائے۔ اس نوعیت کا ظلم انسان کو تباہ کر دیتا ہے۔ اتنے سارے دیگر گناہوں کو چھوڑ کر غیبت کا ذکر کرنے میں شاید یہ حکمت ہے کہ غیبت تمام معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔ اسی کی وجہ سے قطع رحمی ہوتی ہے حتی کہ غیبت قتل و غارت کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ یہ چیز دیہاتوں میں اور خصوصاً اس معاشرے میں بکثرت تھی جس کی آپ نے نشان دہی فرمائی۔ (۳) دوائی استعمال کرنا بظاہر توکل کے منافي معلوم ہوتا ہے اس لیے انہوں نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ ترغیب دی کہ علاج معالجہ ضرور کرنا چاہیے اور بلاوجہ اذیت نہیں اٹھانی چاہیے اور آپ نے خود علاج کروایا بھی ہے جیسا کہ احد کے موقعہ پر مرہم پٹی کروائی۔ دوائی کا استعمال توکل کے منافي نہیں کیونکہ اسباب کو بروئے کار لانا عین توکل ہے۔ البتہ حرام سے علاج کروانے سے ہر صورت گریز کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی۔ آپ نے بتایا کہ ہر مرض کا علاج اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے۔ انسان اس تک رسائی حاصل نہ کرسکے تو یہ اس کی کم فہمی ہے۔ تاہم کسی بیماری کا علاج دم میں ہوتا ہے اور کسی کا صدقہ و خیرات میں اور کسی کا دعا میں، لیکن ہم ان ذرائع کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ (۴) آخری جملے کا تعلق ترجمۃ الباب سے ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے جو کچھ بھی ملتا ہے ان سے سب سے بہتر حسن اخلاق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت جنت میں جائے گی اس لیے اپنے اخلاق و کردار کو عمدہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔