الادب المفرد - حدیث 288

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ إِذَا فَقِهُوا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: أَرْبَعُ خِلَالٍ إِذَا أُعْطِيتَهُنَّ فَلَا يَضُرُّكَ مَا عُزِلَ عَنْكَ مِنَ الدُّنْيَا: حُسْنُ خَلِيقَةٍ، وَعَفَافُ طُعْمَةٍ، وَصِدْقُ حَدِيثٍ، وَحِفْظُ أَمَانَةٍ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 288

کتاب دین کی سوجھ بوجھ رکھنے والے کے لیے حسن اخلاق حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے کہا:چار باتیں اگر تجھ کو مل جائیں تو اس کا کوئی نقصان نہیں کہ دنیا کی باقی چیزیں تجھ سے جاتی رہیں۔ حسن اخلاق، حلال کا کھانا، بات کا سچا ہونا اور امانت کی حفاظت کرنا۔
تشریح : (۱)یہ حدیث مرفوعاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے طور پر بھی ثابت ہے، دیکھیے:(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:۷۳۳) (۲) حسن اخلاق اور اچھی طبیعت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اہل جنت کی اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو تقویٰ اور اچھے اخلاق کی وجہ سے جنت میں گئے ہوں گے۔ (مسند أحمد:۲؍ ۲۹۱، والصحیحة للألباني، ح:۹۷۷) (۳) اعمال و دعا کی قبولیت کا دارومدار رزق حلال پر ہے۔ حرام کھا کر کی گئی عبادات اللہ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل اور اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ رزق حلال کمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس میں قبولیت دعا کے تمام اسباب موجود ہوں لیکن رزق حرام کا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آتا ہے۔ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، اس کا لباس اور غذا حرام کی۔ اس کی دعا کیسے قبول ہو؟ گویا اچھے اعمال اسی وقت سود مند ہوسکتے ہیں جب رزق حلال ہو۔ (۴) اچھا اخلاق اور رزق حلال کمانا نیکی کے کام ہیں ان کی توفیق ملنا اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و احسان ہے اور سچائی اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اللہ کے کاغذوں میں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (۵) یہ مذکورہ سارے اعمال ہوں اور بندہ اللہ تعالیٰ یا بندوں سے خیانت کرنے والا ہو تو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے: ((لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أمَانَةَ لَهُ))(صحیح الترغیب، حدیث:۳۰۰۴) ’’جو امین نہ ہو اس کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض کیے ہیں ان کے بجا لانے اور بندوں کے حقوق کے ادا کرنے میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوں اس حدیث میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اگر انسان اسے ادا کرتا ہے تو اس کی فلاح و کامیابی کے لیے یہی کافي ہے۔
تخریج : صحیح موقوفا وصح مرفوعا:أخرجه أحمد:۶۶۵۲۔ وابن المبارك في الزهد:۱۲۰۴۔ وابن وهب في جامعة:۵۴۶۔ والخرائطي في مکارم الأخلاق:۳۱۔ والطبراني في الکبیر:۱۳؍ ۵۷۔ والبیهقي في شعیب الایمان:۶؍ ۴۴۹۔ الصحیحة:۷۳۳۔ (۱)یہ حدیث مرفوعاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے طور پر بھی ثابت ہے، دیکھیے:(سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:۷۳۳) (۲) حسن اخلاق اور اچھی طبیعت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اہل جنت کی اکثریت ان لوگوں کی ہوگی جو تقویٰ اور اچھے اخلاق کی وجہ سے جنت میں گئے ہوں گے۔ (مسند أحمد:۲؍ ۲۹۱، والصحیحة للألباني، ح:۹۷۷) (۳) اعمال و دعا کی قبولیت کا دارومدار رزق حلال پر ہے۔ حرام کھا کر کی گئی عبادات اللہ کی بارگاہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل اور اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ رزق حلال کمائیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس میں قبولیت دعا کے تمام اسباب موجود ہوں لیکن رزق حرام کا ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب آتا ہے۔ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، اس کا لباس اور غذا حرام کی۔ اس کی دعا کیسے قبول ہو؟ گویا اچھے اعمال اسی وقت سود مند ہوسکتے ہیں جب رزق حلال ہو۔ (۴) اچھا اخلاق اور رزق حلال کمانا نیکی کے کام ہیں ان کی توفیق ملنا اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و احسان ہے اور سچائی اختیار کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اللہ کے کاغذوں میں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے۔ (۵) یہ مذکورہ سارے اعمال ہوں اور بندہ اللہ تعالیٰ یا بندوں سے خیانت کرنے والا ہو تو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ ارشاد نبوی ہے: ((لَا إِیمَانَ لِمَنْ لَا أمَانَةَ لَهُ))(صحیح الترغیب، حدیث:۳۰۰۴) ’’جو امین نہ ہو اس کا کوئی ایمان نہیں۔‘‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے جو احکام فرض کیے ہیں ان کے بجا لانے اور بندوں کے حقوق کے ادا کرنے میں امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یوں اس حدیث میں اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کو جمع کر دیا گیا ہے۔ اگر انسان اسے ادا کرتا ہے تو اس کی فلاح و کامیابی کے لیے یہی کافي ہے۔