الادب المفرد - حدیث 280

كِتَابُ بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ امْرَأَتَيْنِ أَجْوَدَ مِنْ عَائِشَةَ، وَأَسْمَاءَ، وَجُودُهُمَا مُخْتَلِفٌ، أَمَّا عَائِشَةُ فَكَانَتْ تَجْمَعُ الشَّيْءَ إِلَى الشَّيْءِ، حَتَّى إِذَا كَانَ اجْتَمَعَ عِنْدَهَا قَسَمَتْ، وَأَمَّا أَسْمَاءُ فَكَانَتْ لَا تُمْسِكُ شَيْئًا لِغَدٍ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 280

کتاب دلی سخاوت کا بیان حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں:میں نے عورتوں میں سے حضرت عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہما سے زیادہ سخی عورت نہیں دیکھی اور ان کی سخاوت کی کیفیت جدا جدا تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مال جمع کرتی تھیں جب ان کے پاس کچھ مال جمع ہو جاتا تو اسے خرچ کر دیتیں جبکہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کل کے لیے کچھ نہیں روکتی تھیں۔ (جو ہوتا خرچ کر دیتیں)
تشریح : (۱)صدقہ اور عطیہ دینے کی نیت سے مال جمع کرنا سخاوت نفس ہی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ملنے والے کیونکہ زیادہ تھے اور بہت زیادہ لوگوں کی طرف سے انہیں عطیات آتے تھے اس لیے وہ مال جمع کرتیں جب اس قدر ہو جاتا کہ سب کو پورا آجاتا تو خرچ کر دیتیں تاکہ کچھ لوگوں کو دینے اور کچھ کو نہ دینے سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور شاید حضرت اسماء اس لیے جو آتا خرچ کر دیتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خصوصی نصیحت فرمائی تھی کہ ’’خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا اور جمع کرکے بخل کا مظاہرہ مت کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم) اس لیے وہ صدقے کی نیت سے جمع کرنا بھی مناسب خیال نہ کرتی تھیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا کہ آئندہ کل کے لیے جمع نہیں کرتے تھے۔ (مختصر الشمائل، للألباني، حدیث:۳۰۴) (۲) اہل علم کی آراء اگر نصوص سے متصادم نہ ہوں تو مختلف ہونے کے باوجود بھی قابل احترام ہیں۔ حسب قدرت و طاقت کسی پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد)
تخریج : صحیح:أخرجه اللالکائي في الاعتقاد:۲۷۶۳۔ وابن عساکر في تاریخه:۶۹؍ ۱۹۔ (۱)صدقہ اور عطیہ دینے کی نیت سے مال جمع کرنا سخاوت نفس ہی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ملنے والے کیونکہ زیادہ تھے اور بہت زیادہ لوگوں کی طرف سے انہیں عطیات آتے تھے اس لیے وہ مال جمع کرتیں جب اس قدر ہو جاتا کہ سب کو پورا آجاتا تو خرچ کر دیتیں تاکہ کچھ لوگوں کو دینے اور کچھ کو نہ دینے سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور شاید حضرت اسماء اس لیے جو آتا خرچ کر دیتیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خصوصی نصیحت فرمائی تھی کہ ’’خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا اور جمع کرکے بخل کا مظاہرہ مت کرو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تجھ سے روک لے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم) اس لیے وہ صدقے کی نیت سے جمع کرنا بھی مناسب خیال نہ کرتی تھیں۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل تھا کہ آئندہ کل کے لیے جمع نہیں کرتے تھے۔ (مختصر الشمائل، للألباني، حدیث:۳۰۴) (۲) اہل علم کی آراء اگر نصوص سے متصادم نہ ہوں تو مختلف ہونے کے باوجود بھی قابل احترام ہیں۔ حسب قدرت و طاقت کسی پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد)