الادب المفرد - حدیث 278

كِتَابُ بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو قَالَ: حَدَّثَنَا سَحَّامَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصَمِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَحِيمًا، وَكَانَ لَا يَأْتِيهِ أَحَدٌ إِلَّا وَعَدَهُ، وَأَنْجَزَ لَهُ إِنْ كَانَ عِنْدَهُ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، وَجَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ فَأَخَذَ بِثَوْبِهِ فَقَالَ: إِنَّمَا بَقِيَ مِنْ حَاجَتِي يَسِيرَةٌ، وَأَخَافُ أَنْسَاهَا، فَقَامَ مَعَهُ حَتَّى فَرَغَ مِنْ حَاجَتِهِ، ثُمَّ أَقْبَلَ فَصَلَّى

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 278

کتاب دلی سخاوت کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بڑے رحیم و شفیق تھے۔ آپ کے پاس جو (سائل)بھی آتا (نہ ہونے کی صورت میں)اس سے وعدہ فرما لیتے اور اگر ہوتا تو اسے ضرور دیتے۔ ایک دفعہ نماز کی اقامت ہوگئی تو آپ کے پاس دیہاتی آیا اور اس نے آپ کا پلو پکڑ لیا اور کہا:میرا بس تھوڑا سا کام رہ گیا ہے مجھے خدشہ ہے کہ پھر بھول نہ جاؤں اس لیے میری بات سن لیں۔ آپ اس کے ساتھ کھڑے رہے حتی کہ اس نے اپنی بات پوری کرلی تو پھر آپ نے آکر نماز پڑھائی۔
تشریح : (۱)اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور حسن سلوک سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ آپ دنیا کے بادشاہوں کی طرح متکبر نہیں ہیں اسی لیے اس دیہاتی نے اصرار کیا۔ (۲) اس میں آپ کی سخاوت کا ذکر ہے کہ اگر آپ کے پاس ہوتا تو عطا فرما دیتے اور ایسا اور بھی کئی سخی کرتے ہیں اور اگر نہ ہوتا تو آپ وعدہ فرما لیتے کہ جب آئے گا تو تمہیں دوں گا اور ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ یہ سخاوت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اقامۃ اور جماعت کھڑی ہونے کے درمیان کسی ضرورت کی بنا پر وقفہ ہوسکتا ہے، البتہ بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (۴) عالم اگر کسی اہم کام میں کسی مصلحت کی خاطر مصروف ہو تو مقتدیوں کو اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے انتظار کرنا چاہیے۔ جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ عموماً ہماری مساجد میں ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نماز کے لیے اقامت ہو جانے کے بعد آپ ایک شخص سے اتنی دیر گفتگو کرتے رہے کہ آپ کے صحابہ اونگھنے لگے، پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:۶۲۹۲، مسلم، حدیث:۳۶۷) مساجد کے ذمہ داران اور نمازیوں کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلیٰ امامت پر کھڑا ہونے والے کو وہ کیا مقام دیتے ہیں۔ اور جو لوگ ایک دو منٹ امام کے لیٹ ہو جانے پر قیامت کھڑی کر دیتے ہیں انہیں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔
تخریج : حسن:الصحیحة:۲۰۹۴۔ أخرجه المصنف في التاریخ:۴؍ ۲۱۱۔ والمزي في تهذیب الکمال:۱۰؍ ۲۰۷۔ وقصة تاخیر الصلاة بعد الاقامة في الصحیح:۶۴۲۔ ومسلم:۳۷۶۔ (۱)اس سے معلوم ہوا کہ اہل عرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور حسن سلوک سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ آپ دنیا کے بادشاہوں کی طرح متکبر نہیں ہیں اسی لیے اس دیہاتی نے اصرار کیا۔ (۲) اس میں آپ کی سخاوت کا ذکر ہے کہ اگر آپ کے پاس ہوتا تو عطا فرما دیتے اور ایسا اور بھی کئی سخی کرتے ہیں اور اگر نہ ہوتا تو آپ وعدہ فرما لیتے کہ جب آئے گا تو تمہیں دوں گا اور ایسا بہت کم لوگ کرتے ہیں۔ یہ سخاوت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ اقامۃ اور جماعت کھڑی ہونے کے درمیان کسی ضرورت کی بنا پر وقفہ ہوسکتا ہے، البتہ بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔ (۴) عالم اگر کسی اہم کام میں کسی مصلحت کی خاطر مصروف ہو تو مقتدیوں کو اس کا ادب و احترام کرتے ہوئے انتظار کرنا چاہیے۔ جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے جیسا کہ عموماً ہماری مساجد میں ہوتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ نماز کے لیے اقامت ہو جانے کے بعد آپ ایک شخص سے اتنی دیر گفتگو کرتے رہے کہ آپ کے صحابہ اونگھنے لگے، پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ (صحیح البخاري، حدیث:۶۲۹۲، مسلم، حدیث:۳۶۷) مساجد کے ذمہ داران اور نمازیوں کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلیٰ امامت پر کھڑا ہونے والے کو وہ کیا مقام دیتے ہیں۔ اور جو لوگ ایک دو منٹ امام کے لیٹ ہو جانے پر قیامت کھڑی کر دیتے ہیں انہیں بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا چاہیے۔