الادب المفرد - حدیث 277

كِتَابُ بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشْرَ سِنِينَ، فَمَا قَالَ لِي: أُفٍّ، قَطُّ، وَمَا قَالَ لِي لِشَيْءٍ لَمْ أَفْعَلْهُ: أَلَا كُنْتَ فَعَلْتَهُ؟ وَلَا لِشَيْءٍ فَعَلْتُهُ: لِمَ فَعَلْتَهُ؟

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 277

کتاب دلی سخاوت کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دس سال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی لیکن آپ نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا اور اگر میں نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ نے کبھی یہ نہیں کہا تونے یہ کیوں نہیں کیا؟ اور نہ کبھی ایسا ہوا کہ میں نے کوئی کام کیا تو آپ نے یہ کہا ہو کہ تونے یہ کیوں کیا۔
تشریح : (۱)یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفي اور حسن اخلاق کی اعلیٰ دلیل ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قدر سخی اور فراخ دل دیا تھا کہ دنیا کے معاملات کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے بلکہ عفوو درگزر سے کام لیتے جو نفس کی سخاوت کی اعلیٰ قسم ہے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خادم اور نوکر کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرنا چاہیے، تاہم شرعی امور کی پابندی کروانا لازم ہے۔ (۳) اس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بھی ایک لحاظ سے مدح ہے کہ انہوں نے کبھی ڈانٹ ڈپٹ اور ناراضی کا موقع ہی نہیں دیا۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما یکرہ من البخل:۶۰۳۸۔ ومسلم:۲۳۰۹۔ وابي داود:۴۸۷۴۔ والترمذي:۲۰۱۵۔ (۱)یہ حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت ظرفي اور حسن اخلاق کی اعلیٰ دلیل ہے، نیز اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس قدر سخی اور فراخ دل دیا تھا کہ دنیا کے معاملات کو خاطر ہی میں نہیں لاتے تھے بلکہ عفوو درگزر سے کام لیتے جو نفس کی سخاوت کی اعلیٰ قسم ہے۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ خادم اور نوکر کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ سے گریز کرنا چاہیے، تاہم شرعی امور کی پابندی کروانا لازم ہے۔ (۳) اس میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی بھی ایک لحاظ سے مدح ہے کہ انہوں نے کبھی ڈانٹ ڈپٹ اور ناراضی کا موقع ہی نہیں دیا۔