الادب المفرد - حدیث 276

كِتَابُ بَابُ سَخَاوَةِ النَّفْسِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 276

کتاب دلی سخاوت کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’مالداری کثرت مال کا نام نہیں بلکہ مال داری نفس کی مالداری ہے۔‘‘
تشریح : عمومی طور پر جس شخص کو مال ملتا ہے وہ بخل کا شکار ہو جاتا ہے اور مال کی محبت اس کے دل میں گھر کر جاتی ہے اور مال کا جو مقصد ہے کہ انسان مطمئن اور پرسکون زندگی گزارے اس سے بھی وہ محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دل میں ہر وقت مال ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ بے چینی کی زندگی گزارتا ہے۔ نیز زیادہ کمانے کی حرص اور لالچ میں اس کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جسے دل کی سخاوت حاصل ہو اور مال کی محبت اس کے دل میں نہ ہو اسے مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے اور نہ ملے تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور اس کی طلب میں ہلکان نہیں ہوتا۔ نیز وہ نہ ملنے پر حزن و ملال اور افسوس کا اظہار بھی نہیں کرتا بلکہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے۔ اس طرح وہ پرسکون رہتا ہے تو گویا اصل غنی یہ شخص ہے نہ کہ وہ جس کے سر پر ہر وقت تلوار لٹکی رہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الرقاق، باب الغني غني النفس:۶۴۴۶۔ ومسلم:۱۰۵۱۔ والترمذي:۲۳۷۳۔ وابن ماجة:۴۱۳۷۔ عمومی طور پر جس شخص کو مال ملتا ہے وہ بخل کا شکار ہو جاتا ہے اور مال کی محبت اس کے دل میں گھر کر جاتی ہے اور مال کا جو مقصد ہے کہ انسان مطمئن اور پرسکون زندگی گزارے اس سے بھی وہ محروم ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے دل میں ہر وقت مال ختم ہونے کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ بے چینی کی زندگی گزارتا ہے۔ نیز زیادہ کمانے کی حرص اور لالچ میں اس کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جسے دل کی سخاوت حاصل ہو اور مال کی محبت اس کے دل میں نہ ہو اسے مل جائے تو وہ شکر کرتا ہے اور نہ ملے تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور اس کی طلب میں ہلکان نہیں ہوتا۔ نیز وہ نہ ملنے پر حزن و ملال اور افسوس کا اظہار بھی نہیں کرتا بلکہ اللہ کی تقدیر پر راضی ہوتا ہے۔ اس طرح وہ پرسکون رہتا ہے تو گویا اصل غنی یہ شخص ہے نہ کہ وہ جس کے سر پر ہر وقت تلوار لٹکی رہے۔