الادب المفرد - حدیث 275

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُعْطِي الْمَالَ مَنْ أَحَبَّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ، وَلَا يُعْطِي الْإِيمَانَ إِلَّا مَنْ يُحِبُّ، فَمَنْ ضَنَّ بِالْمَالِ أَنْ يُنْفِقَهُ، وَخَافَ الْعَدُوَّ أَنْ يُجَاهِدَهُ، وَهَابَ اللَّيْلَ أَنْ يُكَابِدَهُ، فَلْيُكْثِرْ مِنْ قَوْلِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 275

کتاب حسن اخلاق کا بیان حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان اخلاق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے جس طرح رزق تمہارے درمیان تقسیم کیے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ مال اسے بھی دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے اور اسے بھی جسے پسند نہیں کرتا اور ایمان صرف اسے دیتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔ جو شخص مال خرچ کرنے میں کنجوس ہو اور دشمن سے جہاد کرنے سے ڈرتا ہو اور رات کو نماز میں کھڑے ہوکر تکلیف اٹھانے کی ہمت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ کثرت سے لا الہ الا اللہ، سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کا ورد کرے۔‘‘
تشریح : (۱)یہ حدیث بظاہر موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحہ (۲۷۱۴)میں صراحت کی ہے۔ (۲) مال اور اخلاق اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔ اس کا کم یا زیادہ ملنا اللہ کی ناراضی یا خوشنودی کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دین کی سلامتی عطا کرے اور صحیح عقیدے کی توفیق دے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔ (۳) جس طرح مال کے بارے میں انسان ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ جاتا کہ جو میری قسمت میں ہے مل جائے گا بلکہ اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے اسی طرح عمدہ اخلاق کے حصول کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو اچھے اخلاق کی عادت ڈالنی چاہیے۔ انسان برے اخلاق کو چھوڑ دے تو اس کا اخلاق خود بخود اچھا ہو جاتا ہے جس طرح مال کے بارے میں انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اسی طرح اچھے اخلاق کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ (۴) حدیث کے آخر میں چند اہم اور عزیمت والے امور کا ذکر کیا کہ اگر انسان ان کو بجا لانے کی ہمت نہ پائے اور کوشش کے باوجود اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرسکے، جہاد اور قیام اللیل جیسی عبادات بجا نہ لاسکے تو اس کمی کے ازالے کے لیے اسے کثرت سے ذکر الٰہی کرنا چاہیے۔ یوں اس کی نیکیوں کی کمی بھی دور ہوگی اور ان کاموں کی بھی اللہ تعالیٰ ہمت عطا کرے گا۔
تخریج : صحیح موقوف في حکم المرفوع:أخرجه ابن المبارك في الزهد:۱؍ ۳۹۹۔ وابن أبي شیبة:۶؍ ۹۱۔ والطبراني في الکبیر:۹؍ ۲۰۳۔ وأبي داود في الزهد:۱؍ ۱۵۹۔ الصحیحة:۲۷۱۴۔ (۱)یہ حدیث بظاہر موقوف ہے لیکن مرفوع کے حکم میں ہے جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحیحہ (۲۷۱۴)میں صراحت کی ہے۔ (۲) مال اور اخلاق اللہ تعالیٰ کی تقسیم ہے۔ اس کا کم یا زیادہ ملنا اللہ کی ناراضی یا خوشنودی کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ دین کی سلامتی عطا کرے اور صحیح عقیدے کی توفیق دے اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے۔ (۳) جس طرح مال کے بارے میں انسان ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھ جاتا کہ جو میری قسمت میں ہے مل جائے گا بلکہ اس کے لیے تگ و دو کرتا ہے اسی طرح عمدہ اخلاق کے حصول کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو اچھے اخلاق کی عادت ڈالنی چاہیے۔ انسان برے اخلاق کو چھوڑ دے تو اس کا اخلاق خود بخود اچھا ہو جاتا ہے جس طرح مال کے بارے میں انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے، اسی طرح اچھے اخلاق کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے۔ (۴) حدیث کے آخر میں چند اہم اور عزیمت والے امور کا ذکر کیا کہ اگر انسان ان کو بجا لانے کی ہمت نہ پائے اور کوشش کے باوجود اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرسکے، جہاد اور قیام اللیل جیسی عبادات بجا نہ لاسکے تو اس کمی کے ازالے کے لیے اسے کثرت سے ذکر الٰہی کرنا چاہیے۔ یوں اس کی نیکیوں کی کمی بھی دور ہوگی اور ان کاموں کی بھی اللہ تعالیٰ ہمت عطا کرے گا۔