الادب المفرد - حدیث 274

كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا، مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا، فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ، وَمَا انْتَقَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ، إِلَّا أَنْ تُنْتَهَكَ حُرْمَةُ اللَّهِ تَعَالَى، فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 274

کتاب حسن اخلاق کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو معاملوں میں اختیار دیا گیا تو آپ نے ان میں آسان ہی کا انتخاب کیا۔ جب تک وہ گناہ کا کام نہ ہوتا، اگر گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے ہوتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی انتقام نہیں لیا الا یہ کہ اللہ کی حرمت کو پامال کیا جائے تو آپ اللہ عزوجل کے لیے انتقام لیتے تھے۔
تشریح : (۱)یہ بات حسن اخلاق میں سے ہے کہ انسان شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے آسان پسند ہو۔ شدت پسند اور تعنت پسند نہ ہو، البتہ عزیمت کو اختیار کرنے والا ہو، مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے اور جرابوں پر مسح کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تو کوئی انسان صرف پاؤں دھونے پر ہی عمل کرے اور مسح والے عمل کو نہ لے تو یہ متعنت ہو گا۔ جو اچھے اخلاق والا نہیں ہے۔ تاہم آسانی کا یہ مطلب نہیں کہ اگر حرام میں آسانی ہے تو اس کو اختیار کر لیا جائے بلکہ حرام سے تو آپ سب سے زیادہ اجتناب کرتے تھے۔ یہ صرف جائز اور مباح امور میں ہے۔ (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض وارد ہوتا تھا کہ آپ نے تو جنگیں لڑیں ہیں، لوگوں کو قتل بھی کیا ہے جبکہ آپ حسن اخلاق کا پیکر تھے؟ اس کا جواب بھی اس حدیث میں آگیا کہ آپ نے ذاتی انتقام کی خاطر ایسا کبھی نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کی خاطر کیا۔ اور ایسا کرنا اخلاق کے منافي نہیں۔ جس طرح ڈاکٹر جسم کا ناکارہ حصہ کاٹ دیتا ہے یا چیر پھاڑ کرتا ہے تو اسے کوئی بھی ظالم نہیں کہتا کیونکہ وہ اصلاح کی خاطر کرتا ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا اصلاح کی خاطر کیا جو عین اخلاق ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب المناقب، باب صفة النبي صلى اللّٰه عليه وسلم :۳۵۶۰۔ ومسلم:۲۳۲۷۔ وأبي داود:۴۷۸۵۔ انظر مختصر الشمائل:۳۰۰۔ (۱)یہ بات حسن اخلاق میں سے ہے کہ انسان شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے آسان پسند ہو۔ شدت پسند اور تعنت پسند نہ ہو، البتہ عزیمت کو اختیار کرنے والا ہو، مثال کے طور پر وضو میں پاؤں دھونے اور جرابوں پر مسح کرنے کا اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا تو کوئی انسان صرف پاؤں دھونے پر ہی عمل کرے اور مسح والے عمل کو نہ لے تو یہ متعنت ہو گا۔ جو اچھے اخلاق والا نہیں ہے۔ تاہم آسانی کا یہ مطلب نہیں کہ اگر حرام میں آسانی ہے تو اس کو اختیار کر لیا جائے بلکہ حرام سے تو آپ سب سے زیادہ اجتناب کرتے تھے۔ یہ صرف جائز اور مباح امور میں ہے۔ (۲) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض وارد ہوتا تھا کہ آپ نے تو جنگیں لڑیں ہیں، لوگوں کو قتل بھی کیا ہے جبکہ آپ حسن اخلاق کا پیکر تھے؟ اس کا جواب بھی اس حدیث میں آگیا کہ آپ نے ذاتی انتقام کی خاطر ایسا کبھی نہیں کیا۔ جو بھی کیا وہ اللہ تعالیٰ کی حرمت کی خاطر کیا۔ اور ایسا کرنا اخلاق کے منافي نہیں۔ جس طرح ڈاکٹر جسم کا ناکارہ حصہ کاٹ دیتا ہے یا چیر پھاڑ کرتا ہے تو اسے کوئی بھی ظالم نہیں کہتا کیونکہ وہ اصلاح کی خاطر کرتا ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا اصلاح کی خاطر کیا جو عین اخلاق ہے۔