كِتَابُ بَابُ حُسْنِ الْخُلُقِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ الْهَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((أُخْبِرُكُمْ بِأَحَبِّكُمْ إِلَيَّ، وَأَقْرَبِكُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟)) فَسَكَتَ الْقَوْمُ، فَأَعَادَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ الْقَوْمُ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ((أَحْسَنُكُمْ خُلُقًا))
کتاب
حسن اخلاق کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’کیا میں تمہیں اس شخص کے متعلق بتاؤں جو تم میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب اور روز قیامت تم میں سے مجلس کے لحاظ سے میرے سب سے زیادہ قریب ہوگا؟‘‘ لوگ خاموش ہوگئے۔ آپ نے دو یا تین مرتبہ اپنی بات دہرائی۔ لوگوں نے کہا:ہاں اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا:’’جس کا اخلاق تم میں سب سے اچھا ہو۔‘‘
تشریح :
(۱)حسن اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ انسان باحیا ہو۔ بے حیا انسان اور بے ہودہ گوئی کرنے والا اچھے اخلاق کا مالک نہیں ہوسکتا اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان عیوب سے پاک تھے۔
(۲) کسی شخص سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور روز قیامت بھی اسے آپ کا قرب نصیب ہو اور دنیا و آخرت میں وہ سب سے اچھا انسان ہو، اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایسا صرف حسن اخلاق سے ممکن ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز روزہ اور دیگر حقوق اللہ سے غفلت برتتا ہے لیکن اس کا اخلاق اچھا ہے تو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کی عظمت اور وقار کا لحاظ نہیں رکھتا تو وہ کیسے اچھے اخلاق کا مالک ہوسکتا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه أحمد:۶۷۳۵۔ وابن حبان:۲؍ ۲۳۵۔ والخرائطي في مکارم الاخلاق:۲۶۔ والبیهقي في الشعب:۱۰؍ ۳۵۸۔ ورواه الترمذی:۲۰۱۸۔ من حدیث جابر الصحیحة:۷۹۱۔
(۱)حسن اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ انسان باحیا ہو۔ بے حیا انسان اور بے ہودہ گوئی کرنے والا اچھے اخلاق کا مالک نہیں ہوسکتا اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان عیوب سے پاک تھے۔
(۲) کسی شخص سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم محبت کریں اور روز قیامت بھی اسے آپ کا قرب نصیب ہو اور دنیا و آخرت میں وہ سب سے اچھا انسان ہو، اس سے بڑھ کر خوش نصیبی اور کیا ہوسکتی ہے؟ ایسا صرف حسن اخلاق سے ممکن ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص نماز روزہ اور دیگر حقوق اللہ سے غفلت برتتا ہے لیکن اس کا اخلاق اچھا ہے تو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو اپنے خالق اور پیدا کرنے والے کی عظمت اور وقار کا لحاظ نہیں رکھتا تو وہ کیسے اچھے اخلاق کا مالک ہوسکتا ہے۔