الادب المفرد - حدیث 268

كِتَابُ بَابُ الْمِزَاحِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحْمِلُهُ، فَقَالَ: ((أَنَا حَامِلُكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ)) ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ نَاقَةٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 268

کتاب مذاق کرنے کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپ نے فرمایا:’’میں تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کرا دیتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا:اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنتی ہیں؟‘‘
تشریح : (۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اگر آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ عنایت فرما دیتے بصورت دیگر معذرت کرلیتے یا آئندہ دینے کا وعدہ فرماتے۔ آپ نے کبھی سائل کو جھڑکا نہیں اور نہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ا س سائل سے بھی آپ نے دل لگی اور دینے کا عندیہ اس انداز سے دیا کہ وہ سمجھ نہ سکا لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ پریشان ہو رہا ہے تو فوراً وضاحت فرما دی کہ بھائی اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (۲) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے ایک عام آدمی سے بھی خوش طبعی سے بات کی اور دنیا داروں کی طرح تکبر اور غرور والا انداز اختیار نہیں کیا۔ نیز امت کے لیے بھی اس مزاح کا ادب بیان کر دیا گیا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو دوسرے کی بات پہلے غور سے سن کر پھر اس کا جواب دینا چاہیے کیونکہ بسا اوقات کسی سوال کا جواب خود سوال میں ہوتا ہے۔ جب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سوار کروں گا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا اونٹ دیں گے جو سواری کے قابل ہو۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، الأدب، باب ماجاء في المزاح:۴۹۹۸۔ والترمذي:۱۹۹۱۔ (۱) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ اگر آپ کے پاس کوئی چیز ہوتی تو آپ عنایت فرما دیتے بصورت دیگر معذرت کرلیتے یا آئندہ دینے کا وعدہ فرماتے۔ آپ نے کبھی سائل کو جھڑکا نہیں اور نہ اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ا س سائل سے بھی آپ نے دل لگی اور دینے کا عندیہ اس انداز سے دیا کہ وہ سمجھ نہ سکا لیکن جب آپ نے دیکھا کہ وہ پریشان ہو رہا ہے تو فوراً وضاحت فرما دی کہ بھائی اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (۲) اس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع بھی ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے ایک عام آدمی سے بھی خوش طبعی سے بات کی اور دنیا داروں کی طرح تکبر اور غرور والا انداز اختیار نہیں کیا۔ نیز امت کے لیے بھی اس مزاح کا ادب بیان کر دیا گیا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو دوسرے کی بات پہلے غور سے سن کر پھر اس کا جواب دینا چاہیے کیونکہ بسا اوقات کسی سوال کا جواب خود سوال میں ہوتا ہے۔ جب آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں سوار کروں گا تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ایسا اونٹ دیں گے جو سواری کے قابل ہو۔