الادب المفرد - حدیث 264

كِتَابُ بَابُ الْمِزَاحِ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ - وَمَعَهُنَّ أُمُّ سُلَيْمٍ - فَقَالَ: ((يَا أَنْجَشَةُ، رُوَيْدًا سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ)) قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: فَتَكَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَلِمَةٍ لَوْ تَكَلَّمَ بِهَا بَعْضُكُمْ لَعُبْتُمُوهَا عَلَيْهِ، قَوْلُهُ: ((سَوْقَكَ بِالْقَوَارِيرِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 264

کتاب مذاق کرنے کا بیان حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کچھ بیویوں کے پاس تشریف لائے اور ان (بیویوں)کے ساتھ ام سلیم رضی اللہ عنہا بھی تھیں، آپ نے فرمایا:’’اے انجشہ! شیشوں کو آہستہ لے کر چلو۔‘‘ راوی حدیث ابو قلابہ نے کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا حکم ارشاد فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی کہتا تو تم اسے اچھا نہ سمجھتے۔ میری مراد آپ کا یہ کہنا:’’آبگینوں کو احتیاط سے لے کر چلو۔‘‘
تشریح : (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں بھی تھیں۔ اور وہ اونٹوں پر سوار تھیں آپ کے غلام انجشہ اونٹوں کو ہانک رہے تھے۔ انہوں نے حدی (اشعار پڑھنے)شروع کی تو اونٹ تیز چلنا شروع ہوگئے۔ آپ نے عورتوں کے نازک مزاج ہونے کی وجہ سے انہیں شیشوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آبگینے توڑ نہ دینا کہ انہیں زیادہ تیز نہ ہانکوں کہ عورتوں کو نقصان ہو۔ اس میں مزاح کا کلمہ یہ تھا کہ آپ نے عورتوں کو آبگینوں سے تشبیہ دی۔ بظاہر یہ کلمہ خلاف مروت معلوم ہوتا ہے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان کی وجہ سے کوئی بھی اس کا غلط مفہوم نہیں لے سکتا تھا۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات مزاح کی نوعیت افراد کے اعتبار سے بدل جاتی ہے، اسی طرح اوقات کے اعتبار سے بھی مذاق کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ (۳) دوستوں کے ساتھ مذاق کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کسی کی توہین نہ ہو اور اس میں غیبت اور فحش گوئی وغیرہ بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح کے مذاق سے کینہ اور بغض پیدا ہوتا ہے۔ (۴) ’’آبگینوں کو احتیاط سے لے کر چلو‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی خوبصورت آواز سے انہیں فتنے میں مبتلا نہ کرو کیونکہ عورتیں جلد متاثر ہو جاتی ہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب ما یجوز من الشعر والرجز والحداء:۶۱۴۹۔ ومسلم:۲۳۲۳۔ (۱)رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے اور آپ کے ساتھ آپ کی بیویاں بھی تھیں۔ اور وہ اونٹوں پر سوار تھیں آپ کے غلام انجشہ اونٹوں کو ہانک رہے تھے۔ انہوں نے حدی (اشعار پڑھنے)شروع کی تو اونٹ تیز چلنا شروع ہوگئے۔ آپ نے عورتوں کے نازک مزاج ہونے کی وجہ سے انہیں شیشوں سے تشبیہ دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آبگینے توڑ نہ دینا کہ انہیں زیادہ تیز نہ ہانکوں کہ عورتوں کو نقصان ہو۔ اس میں مزاح کا کلمہ یہ تھا کہ آپ نے عورتوں کو آبگینوں سے تشبیہ دی۔ بظاہر یہ کلمہ خلاف مروت معلوم ہوتا ہے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت شان کی وجہ سے کوئی بھی اس کا غلط مفہوم نہیں لے سکتا تھا۔ (۲) اس سے معلوم ہوا کہ بسا اوقات مزاح کی نوعیت افراد کے اعتبار سے بدل جاتی ہے، اسی طرح اوقات کے اعتبار سے بھی مذاق کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ (۳) دوستوں کے ساتھ مذاق کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس میں کسی کی توہین نہ ہو اور اس میں غیبت اور فحش گوئی وغیرہ بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس طرح کے مذاق سے کینہ اور بغض پیدا ہوتا ہے۔ (۴) ’’آبگینوں کو احتیاط سے لے کر چلو‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنی خوبصورت آواز سے انہیں فتنے میں مبتلا نہ کرو کیونکہ عورتیں جلد متاثر ہو جاتی ہیں۔