كِتَابُ بَابُ الْأُلْفَةِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: النِّعَمُ تُكْفَرُ، وَالرَّحِمُ تُقْطَعُ، وَلَمْ نَرَ مِثْلَ تَقَارُبِ الْقُلُوبِ
کتاب
باہم الفت کے ساتھ رہنے کا بیان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:نعمتوں کی ناقدری کی جاتی ہے اور رحم کو کاٹا جاتا ہے اور ہم نے دلوں کی قربت جیسی کوئی الفت نہیں دیکھی۔
تشریح :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا باہمی تعلق کسی نعمت اور احسان کی بنیادی پر ہو تو اس کے ٹوٹنے کا امکان ہوتا ہے کہ لوگ احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احسان کرنے والے کی بسا اوقات ناقدری کرتے ہیں۔ اسی طرح رشتہ داری بھی بسا اوقات باہمی اختلاف و انتشار یا دوری کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے کیونکہ قرابت داری بھی محبت کی محتاج ہوئی ہے لیکن اگر دلی طور پر قربت ہو اور ایک دوسرے سے الفت ہو تو وہ کسی احسان یا رشتہ داری کی محتاج نہیں ہوتی۔ ایسی قربت ہی ایک دوسرے سے اختیار کرنے کا حکم ہے۔ واللہ اعلم
تخریج :
صحیح:أخرجه ابن المبارك في الذهب:۳۶۲۔ وابن المقري في معجمه:۲۲۲۔ والحاکم:۲؍ ۳۵۹۔ والبیهقي في شعب الایمان:۹۰۳۲۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کا باہمی تعلق کسی نعمت اور احسان کی بنیادی پر ہو تو اس کے ٹوٹنے کا امکان ہوتا ہے کہ لوگ احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے احسان کرنے والے کی بسا اوقات ناقدری کرتے ہیں۔ اسی طرح رشتہ داری بھی بسا اوقات باہمی اختلاف و انتشار یا دوری کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے کیونکہ قرابت داری بھی محبت کی محتاج ہوئی ہے لیکن اگر دلی طور پر قربت ہو اور ایک دوسرے سے الفت ہو تو وہ کسی احسان یا رشتہ داری کی محتاج نہیں ہوتی۔ ایسی قربت ہی ایک دوسرے سے اختیار کرنے کا حکم ہے۔ واللہ اعلم