الادب المفرد - حدیث 256

كِتَابُ بَابُ الْمُسْتَشَارُ مُؤْتَمَنٌ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي الْهَيْثَمِ: ((هَلْ لَكَ خَادِمٌ؟)) قَالَ: لَا، قَالَ: ((فَإِذَا أَتَانَا سَبْيٌ فَأْتِنَا)) فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَأْسَيْنِ لَيْسَ مَعَهُمَا ثَالِثٌ، فَأَتَاهُ أَبُو الْهَيْثَمِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اخْتَرْ مِنْهُمَا)) ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اخْتَرْ لِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ الْمُسْتَشَارَ مُؤْتَمَنٌ، خُذْ هَذَا، فَإِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي، وَاسْتَوْصِ بِهِ خَيْرًا)) ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: مَا أَنْتَ بِبَالِغٍ مَا قَالَ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنْ تُعْتِقَهُ، قَالَ: فَهُوَ عَتِيقٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْ نَبِيًّا وَلَا خَلِيفَةً، إِلَّا وَلَهُ بِطَانَتَانِ: بِطَانَةٌ تَأْمُرُهُ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَاهُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَبِطَانَةٌ لَا تَأْلُوهُ خَبَالًا، وَمَنْ يُوقَ بِطَانَةَ السُّوءِ فَقَدْ وُقِيَ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 256

کتاب جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالہیثم رضی اللہ عنہ سے پوچھا:’’کیا تمہارے پاس کوئی خادم ہے؟‘‘ انہوں نے کہا:نہیں! آپ نے فرمایا:’’جب ہمارے پاس قیدی آئیں تو آنا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف دو قیدی آئے تو ابوالہیثم حاضر خدمت ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ان میں سے ایک لے لو۔‘‘ انہوں نے کہا:اللہ کے رسول! آپ میرے لیے جو پسند کرتے ہیں وہ دے دیں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تم یہ لے لو کیونکہ میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے اور میں اس کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ ان کی بیوی نے کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں جو وصیت فرمائی ہے آپ اسے پورا نہیں کرسکتے الا یہ کہ اسے آزاد کر دیں۔ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ نے کہا:وہ آزاد ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا اور کسی کے خلافت سپرد نہیں کی مگر اس کے لیے دو راز داں ضرور بنائے ایک راز داں کا تو یہ کام رہا کہ وہ اسے اچھائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے اور ایک راز داں وہ ہے کہ اسے خرابی میں ڈالنے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا اور جو شخص برے راز داں سے بچا لیا جاتا ہے وہ واقعی شر سے بچا لیا گیا۔‘‘
تشریح : (۱)’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو چاہیے کہ خیر خواہی کرتے ہوئے صحیح اور درست مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ (۲) ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے، انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا تو آپ نے انہیں نمازی غلام منتخب کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی اس سے حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی جس سے معلوم ہوا کہ نوکر یا خادم تلاش کرتے وقت بھی دین دار آدمی کو ترجیح دینی چاہیے خواہ دوسرا شخص کام میں زیادہ مہارت ہی رکھتا ہو۔ اسی طرح ملازم اگر نمازی ہو تو اس کے ساتھ حسن سلوک دوسروں کی نسبت زیادہ کرنا چاہیے۔ (۳) شریک حیات اگر اچھی اور نیک ہو تو انسان کے لیے نیکی کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اگر آدمی کوتاہی کا مرتکب ہو تو وہ صحیح راہنمائی کرکے انسان کو بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے برعکس بیوی اگر بری ہو تو چاہنے کے باوجود بھی نیکی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے۔ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ وہ غلام کو آزاد کر دے کیونکہ یہ حسن سلوک کی اعلیٰ ترین صورت ہے اور اس کے ساتھ بھلائی اسی صورت میں ممکن ہے۔ (۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے اچھے دوستوں اور اچھے اہل خانہ کی دعا کرنی چاہیے اور مشورہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو متقی اور پرہیزگار ہوں اور امانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف بھی ہو۔
تخریج : صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب الزهد، باب ماجاء في معیشة أصحاب النبي صلى اللّٰه عليه وسلم :۲۳۶۹۔ والنسائي في الکبریٰ:۶۵۸۳۔ والحاکم:۴؍ ۱۳۱۔ والبیهقي في الشعب:۴۶۰۴۔ والبغوي في شرح السنة:۱۳؍ ۱۹۰۔ الصحیحة:۱۶۴۱۔ (۱)’’جس سے مشورہ طلب کیا جائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی پر اعتماد کرتے ہوئے اس سے مشورہ طلب کیا جائے تو چاہیے کہ خیر خواہی کرتے ہوئے صحیح اور درست مشورہ دے اور مشورہ طلب کرنے والے کے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائے۔ (۲) ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بدری صحابی تھے، انہوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ طلب کیا تو آپ نے انہیں نمازی غلام منتخب کرنے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی اس سے حسن سلوک کرنے کی تاکید فرمائی جس سے معلوم ہوا کہ نوکر یا خادم تلاش کرتے وقت بھی دین دار آدمی کو ترجیح دینی چاہیے خواہ دوسرا شخص کام میں زیادہ مہارت ہی رکھتا ہو۔ اسی طرح ملازم اگر نمازی ہو تو اس کے ساتھ حسن سلوک دوسروں کی نسبت زیادہ کرنا چاہیے۔ (۳) شریک حیات اگر اچھی اور نیک ہو تو انسان کے لیے نیکی کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اگر آدمی کوتاہی کا مرتکب ہو تو وہ صحیح راہنمائی کرکے انسان کو بھٹکنے سے بچا لیتی ہے۔ اس کے برعکس بیوی اگر بری ہو تو چاہنے کے باوجود بھی نیکی کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی کے انتخاب کے وقت اس کی دینداری کو ترجیح دینے کا حکم دیا ہے۔ ابوالہیثم رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا کہ وہ غلام کو آزاد کر دے کیونکہ یہ حسن سلوک کی اعلیٰ ترین صورت ہے اور اس کے ساتھ بھلائی اسی صورت میں ممکن ہے۔ (۴) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے اچھے دوستوں اور اچھے اہل خانہ کی دعا کرنی چاہیے اور مشورہ ان لوگوں سے کرنا چاہیے جو متقی اور پرہیزگار ہوں اور امانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں میں اللہ کا خوف بھی ہو۔