الادب المفرد - حدیث 255

كِتَابُ بَابُ إِذَا أَقْبَلَ أَقْبَلَ جَمِيعًا، وَإِذَا أَدْبَرَ أَدْبَرَ جَمِيعًا حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: أَخْبَرَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ مُسْلِمٍ مَوْلَى ابْنَةِ قَارِظٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ رُبَّمَا حَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَقُولُ: حَدَّثَنِيهِ أَهْدَبُ الشُّفْرَيْنِ، أَبْيَضُ الْكَشْحَيْنِ، إِذَا أَقْبَلَ أَقْبَلَ جَمِيعًا، وَإِذَا أَدْبَرَ، أَدْبَرَ جَمِيعًا، لَمْ تَرَ عَيْنٌ مِثْلَهُ، وَلَنْ تَرَاهُ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 255

کتاب جب متوجہ ہو تو پوری طرح توجہ کرے اور جب توجہ ہٹائے تو پوری طرح ہٹائے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہوئے یوں کہتے:مجھے اس ہستی نے بیان کیا جس کی پلکیں لمبی لمبی تھیں، جن کے پہلو سفید تھے۔ وہ کسی کی طرف متوجہ ہوتے تو پوری طرح توجہ کرتے اور جب توجہ پھیر کر روانہ ہوتے تو پوری طرح توجہ ختم کرکے روانہ ہوتے۔ کسی آنکھ نے ایسا شخص نہیں دیکھا اور نہ کبھی کوئی آنکھ ایسا شخص دیکھ سکے گی۔
تشریح : (۱)ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جب کسی سے محو گفتگو ہو تو پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان بات کہیں اور کر رہا ہو اور منہ کسی اور طرف ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز کلام یہ تھا کہ آپ پوری توجہ سے ہم کلام ہوتے اور جب جانا ہوتا تو مڑ کر چلے جاتے۔ کوئی بلاتا تو رک کر بلانے والے کی طرف متوجہ ہوتے، پھر گفتگو کرتے۔ خیانت کرنے والی آنکھ کی طرح بے مقصد ادھر ادھر تانگ جھانک نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی ایک جھلک بھی دکھائی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آپ کا دیدار اور آخرت میں آپ کا ساتھ نصیب فرمائے۔
تخریج : صحیح:الصحیحة:۳۱۹۵۔ رواه ابن سعد في الطبقات:۱؍ ۳۱۸۔ وابن عساکر في تاریخه:۳؍ ۲۷۲۔ والبیهقي في دلائل النبوة نحوه:۱؍ ۳۱۶۔ (۱)ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جب کسی سے محو گفتگو ہو تو پوری توجہ سے اس کی طرف متوجہ ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان بات کہیں اور کر رہا ہو اور منہ کسی اور طرف ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز کلام یہ تھا کہ آپ پوری توجہ سے ہم کلام ہوتے اور جب جانا ہوتا تو مڑ کر چلے جاتے۔ کوئی بلاتا تو رک کر بلانے والے کی طرف متوجہ ہوتے، پھر گفتگو کرتے۔ خیانت کرنے والی آنکھ کی طرح بے مقصد ادھر ادھر تانگ جھانک نہیں کرتے تھے۔ (۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کی ایک جھلک بھی دکھائی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے بڑھ کر خوبصورت تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں آپ کا دیدار اور آخرت میں آپ کا ساتھ نصیب فرمائے۔