الادب المفرد - حدیث 254

كِتَابُ بَابُ الضَّحِكِ حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِهِ يَضْحَكُونَ وَيَتَحَدَّثُونَ، فَقَالَ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا، وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا)) ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَأَبْكَى الْقَوْمَ، وَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ: ((يَا مُحَمَّدُ، لِمَ تُقَنِّطُ عِبَادِي؟)) ، فَرَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ((أَبْشِرُوا، وَسَدِّدُوا، وَقَارِبُوا))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 254

کتاب ہنسنے کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے پاس تشریف لائے جو ہنس رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا:’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم جان لیتے جو میں جانتا ہوں تو تم ہنستے تھوڑا اور روتے زیادہ۔‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور لوگوں کو رلا دیا اور اللہ عزوجل نے آپ کی طرف وحی کی:اے محمد! آپ میرے بندوں کو مایوس کیوں کرتے ہیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور فرمایا:’’خوش ہو جاؤ، استقامت اختیار کرو اور عمل کو صحیح کرنے کی کوشش کرو۔‘‘
تشریح : (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ زیادہ نہیں ہنسنا چاہیے اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے جس کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا﴾ (التوبة:۸۲) ’’انہیں چاہیے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔‘‘ (۲) اللہ تعالیٰ کا ڈر زیادہ ہونا چاہیے یا اس کی رحمت کی امید؟ اس بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں خوف امید پر غالب ہونی چاہیے اور جب انسان قریب الموت ہو تو پھر اللہ کی رحمت کی امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ (۳) خشیت الٰہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، تاہم اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر گریہ و زاری کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ (۴) آخری حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تمہارے تھوڑے عمل کا بھی بہت بدلہ دے گا جیسا کہ کم از کم دس گنا کی صراحت ہے۔ یہ سوچ کر مایوس نہ ہو جاؤ کہ ہم زیادہ تو کر نہیں سکتے تو تھوڑے اعمال کا کیا فائدہ؟ بلکہ استقامت کے ساتھ افراط و تفریط کے راہ سے ہٹ کر عمل کرتے رہو اور اللہ سے اجر کی امید رکھو۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۱۰۰۲۹۔ وابن المبارك في الزهد:۱؍ ۳۱۲۔ وابن حبان:۱۱۳۔ والبیهقي في الشعب:۲؍ ۳۴۳۔ الصحیحة:۳۱۹۴۔ (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ زیادہ نہیں ہنسنا چاہیے اس سے دل مردہ ہو جاتا ہے جس کی بنا پر انسان اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْلًا وَّلْیَبْکُوْا کَثِیْرًا﴾ (التوبة:۸۲) ’’انہیں چاہیے کہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔‘‘ (۲) اللہ تعالیٰ کا ڈر زیادہ ہونا چاہیے یا اس کی رحمت کی امید؟ اس بارے میں علماء کی مختلف آراء ہیں۔ راجح بات یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں خوف امید پر غالب ہونی چاہیے اور جب انسان قریب الموت ہو تو پھر اللہ کی رحمت کی امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ (۳) خشیت الٰہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے۔ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے، تاہم اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر گریہ و زاری کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ (۴) آخری حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ تم خوش ہو جاؤ اللہ تعالیٰ تمہارے تھوڑے عمل کا بھی بہت بدلہ دے گا جیسا کہ کم از کم دس گنا کی صراحت ہے۔ یہ سوچ کر مایوس نہ ہو جاؤ کہ ہم زیادہ تو کر نہیں سکتے تو تھوڑے اعمال کا کیا فائدہ؟ بلکہ استقامت کے ساتھ افراط و تفریط کے راہ سے ہٹ کر عمل کرتے رہو اور اللہ سے اجر کی امید رکھو۔