الادب المفرد - حدیث 251

كِتَابُ بَابُ التَّبَسُّمِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا قَطُّ حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: وَكَانَ إِذَا رَأَى غَيْمًا أَوْ رِيحًا عُرِفَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الْغَيْمَ فَرِحُوا، رَجَاءَ أَنْ يَكُونَ فِيهِ الْمَطَرُ، وَأَرَاكَ إِذَا رَأَيْتَهُ عُرِفَتْ فِي وَجْهِكَ الْكَرَاهَةُ؟ فَقَالَ: " يَا عَائِشَةُ، مَا يُؤْمِنِّي أَنْ يَكُونَ فِيهِ عَذَابٌ؟ عُذِّبَ قَوْمٌ بِالرِّيحِ، وَقَدْ رَأَى قَوْمٌ الْعَذَابَ مِنْهُ فَقَالُوا: ﴿هَذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا﴾ [الأحقاف: 24] "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 251

کتاب مسکرانے کا بیان ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی اس طرح ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آیا ہو۔ آپ صرف مسکراتے تھے آپ جب کبھی بادل دیکھتے یا آندھی چلتی تو آپ کے چہرے سے پریشانی نمایاں ہو جاتی۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول! لوگ بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اس امید پر کہ بارش ہوگی اور آپ کو میں دیکھتی ہوں کہ آپ جب بادل دیکھتے ہیں تو آپ کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے کیا اطمینان ہے کہ اس میں عذاب ہو؟ ایک قوم کو سخت ہوا کے ذریعے سے عذاب دیا گیا اور جب اس قوم نے عذاب دیکھا تو کہا:’’یہ بادل ہے جو ہم پر پانی برسانے والا ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے کہ آپ جب مسکراتے تو قہقہہ نہیں لگاتے تھے بلکہ آپ کا اکثر معمول تبسم فرمانے کا تھا اور کبھی کبھار اس طرح بھی ہنستے کہ آپ کی ابتدائی داڑھیں نظر آتیں۔ (۲) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا ہے۔ تبسم والی روایت سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ آپ خود تو ہر وقت مسکراتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کر دی کہ جو ہنسنا منع ہے ایسا تو آپ کبھی نہیں ہنسے اور مسکراہٹ محض اظہار مسرت ہے جو آپ فرماتے اور یہ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے تاکہ دوسرا مسلمان خوش ہو جائے۔ پھر آپ تو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے حتی کہ اگر کبھی بادل آجاتے تو بھی اللہ کے عذاب سے ڈر کر خوف زدہ ہو جاتے کہ کہیں پہلی قوموں کی طرح ہمیں بھی تباہ نہ کر دیا جائے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب التفسیر، سورة الاحقاف ۴۸۲۹۔ ومسلم:۸۹۹۔ وأبي داود:۵۰۹۸۔ والترمذي:۳۲۵۷۔ وابن ماجة:۳۸۹۱۔ (۱)اس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے کہ آپ جب مسکراتے تو قہقہہ نہیں لگاتے تھے بلکہ آپ کا اکثر معمول تبسم فرمانے کا تھا اور کبھی کبھار اس طرح بھی ہنستے کہ آپ کی ابتدائی داڑھیں نظر آتیں۔ (۲) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے زیادہ ہنسنے سے منع فرمایا ہے۔ تبسم والی روایت سے یہ شبہ پڑ سکتا ہے کہ آپ خود تو ہر وقت مسکراتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کر دی کہ جو ہنسنا منع ہے ایسا تو آپ کبھی نہیں ہنسے اور مسکراہٹ محض اظہار مسرت ہے جو آپ فرماتے اور یہ ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے تاکہ دوسرا مسلمان خوش ہو جائے۔ پھر آپ تو ہر وقت اللہ سے ڈرتے رہتے تھے حتی کہ اگر کبھی بادل آجاتے تو بھی اللہ کے عذاب سے ڈر کر خوف زدہ ہو جاتے کہ کہیں پہلی قوموں کی طرح ہمیں بھی تباہ نہ کر دیا جائے۔