كِتَابُ بَابُ التَّبَسُّمِ حَدَّثَنِا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا يَقُولُ: مَا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((يَدْخُلُ مِنْ هَذَا الْبَابِ رَجُلٌ مِنْ خَيْرِ ذِي يَمَنٍ، عَلَى وَجْهِهِ مَسْحَةُ مَلَكٍ)) ، فَدَخَلَ جَرِيرٌ
کتاب
مسکرانے کا بیان
حضرت قیس سے روایت ہے کہ میں نے جریر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:جب سے میں اسلام لایا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب بھی دیکھا میرے سامنے مسکرائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس دروازے سے ایک ایسا آدمی داخل ہوگا جو یمن کے بہترین لوگوں میں ہے اس کا چہرہ نہایت خوبصورت ہے‘‘ پھر جریر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے۔
تشریح :
(۱)اس حدیث کے دو حصے ہیں:پہلا حصہ جس میں آپ کے مسکرا کر ملنے کا تعلق ہے وہ بخاری و مسلم میں ہے جبکہ دوسرا حصہ جو آپ کے قول کی صورت میں ہے وہ متفق علیہ نہیں ہے۔
(۲) ہنسنے کی ابتدائی کیفیت کو تبسم اور اگر خوشی سے دانت ظاہر ہوں تو اسے ضحک اور اگر آواز بھی ہو تو اسے قہقہہ کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر تبسم فرماتے اور کبھی کبھی ضحک بھی فرماتے۔
(۳) یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور تواضع کی دلیل ہے اور آپ نے امت کو بھی یہی درس دیا ہے کہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
((تَبَسُّمُكَ في وَجْهِ أخِیكَ لَكَ صَدَقَةٌ))
’’تیرا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی تیرے حق میں صدقہ ہے۔‘‘
(۴) اس حدیث سے حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ یہ نہایت خوبصورت تھے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ جب میں مدینہ طیبہ کے قریب پہنچا تو میں نے سواری بٹھائی پھر اپنا حلہ پہنا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگ مجھے سر اٹھا اٹھا کر دیکھتے تھے۔ میں نے پوچھا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا تذکرہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں بہت اچھا تذکرہ کیا ہے۔ انہیں اس امت کا یوسف کہا جاتا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب التبسم والضحك:۶۰۸۹، ۳۰۲۰۔ ومسلم:۲۴۷۵۔ والترمذي:۳۸۲۱۔ وابن ماجة:۱۵۹۔ أخرجه الحمیدي:۶؍ ۴۸۔ وأحمد:۱۹۱۸۰۔ والنسائي في الکبریٰ:۸۲۴۴۔ وابن حبان:۷۱۹۹۔ والطبراني في الکبیر:۲؍ ۳۰۱۔
(۱)اس حدیث کے دو حصے ہیں:پہلا حصہ جس میں آپ کے مسکرا کر ملنے کا تعلق ہے وہ بخاری و مسلم میں ہے جبکہ دوسرا حصہ جو آپ کے قول کی صورت میں ہے وہ متفق علیہ نہیں ہے۔
(۲) ہنسنے کی ابتدائی کیفیت کو تبسم اور اگر خوشی سے دانت ظاہر ہوں تو اسے ضحک اور اگر آواز بھی ہو تو اسے قہقہہ کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکثر و بیشتر تبسم فرماتے اور کبھی کبھی ضحک بھی فرماتے۔
(۳) یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق اور تواضع کی دلیل ہے اور آپ نے امت کو بھی یہی درس دیا ہے کہ دوسروں سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں۔ اس کی فضیلت بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
((تَبَسُّمُكَ في وَجْهِ أخِیكَ لَكَ صَدَقَةٌ))
’’تیرا اپنے بھائی کو دیکھ کر مسکرا دینا بھی تیرے حق میں صدقہ ہے۔‘‘
(۴) اس حدیث سے حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ یہ نہایت خوبصورت تھے۔ ان کا اپنا بیان ہے کہ جب میں مدینہ طیبہ کے قریب پہنچا تو میں نے سواری بٹھائی پھر اپنا حلہ پہنا اور آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو لوگ مجھے سر اٹھا اٹھا کر دیکھتے تھے۔ میں نے پوچھا:کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا تذکرہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا:ہاں بہت اچھا تذکرہ کیا ہے۔ انہیں اس امت کا یوسف کہا جاتا ہے۔