الادب المفرد - حدیث 25

كِتَابُ بَابُ بِرِّ الْوَالِدِ الْمُشْرِكِ حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً، فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصِلُهَا؟ قَالَ: ((نَعَمْ)) . قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا: ﴿لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ﴾ [الممتحنة: 8]

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 25

کتاب مشرک باپ سے حسن سلوک حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مشرکین مکہ سے)معاہدے کے دوران میں میری ماں (اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم)میرے پاس (صلہ رحمی کی)خواہش مند ہوکر آئی تو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ ابن عینیہ کہتے ہیں، اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿ لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ ﴾ (الممتحنة: ۸)’’اللہ تمہیں ان لوگوں کی بابت نہیں روکتا جو تم سے دین پر نہیں لڑے....۔‘‘
تشریح : (۱)حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو ذونطاقین کہا جاتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبل از اسلام قیلۃ بنت عبدالعزی سے شادی کی جس کے طن سے ہجرت سے ستائیس (۲۷)سال قبل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ظہور اسلام سے قبل ہی قیلہ کو طلاق دے دی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے شروع ہی میں اسلام قبول کرلیا۔ ان کے بطن سے سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے، یہ نہایت بہادر خاتون تھیں۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے والدین خواہ اسلام سے بغض و عداوت بھی رکھتے ہوں تب بھی ان سے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ بعض لوگ والدین کا مسلک الگ ہونے پر ان کو چھوڑ دیتے ہیں یا برا سلوک کرتے ہیں۔ ایسا کرنا مذموم ہے۔ (۳) کسی شرعی مسئلے میں تردد ہو تو اس کی بابت سوال کرلینا چاہیے تاکہ صحیح موقف کے مطابق عمل کیا جاسکے۔ (۴) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم رشتہ داری پر دین کو مقدم رکھتے تھے اور اگر رشتہ داری اور دین کا ٹکراؤ آجاتا تو رشتہ داری کی ذرہ پروا نہ کرتے تھے۔ (۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام خطابی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر والدین کے ساتھ مال وغیرہ کی صورت میں اسی طرح صلہ رحمی ضروری ہے جس طرح مسلمان والدین کے ساتھ۔ اور یہ استنباط بھی کیا گیا ہے کہ ماں باپ کا نفقہ اولاد کے ذمے ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ (صحیح الأدب المفرد: ۱؍۴۴) (۶) کافر والدین کے ساتھ رویے سے متعلق تفصیل سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
تخریج : صحیح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الوالد المشرك: ۵۹۷۸، ۲۶۲۰۔ ومسلم: ۱۰۰۳۔ و ابي داود: ۱۶۶۸۔ (۱)حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کو ذونطاقین کہا جاتا ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قبل از اسلام قیلۃ بنت عبدالعزی سے شادی کی جس کے طن سے ہجرت سے ستائیس (۲۷)سال قبل حضرت اسماء رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ظہور اسلام سے قبل ہی قیلہ کو طلاق دے دی۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے شروع ہی میں اسلام قبول کرلیا۔ ان کے بطن سے سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے، یہ نہایت بہادر خاتون تھیں۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے والدین خواہ اسلام سے بغض و عداوت بھی رکھتے ہوں تب بھی ان سے صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ بعض لوگ والدین کا مسلک الگ ہونے پر ان کو چھوڑ دیتے ہیں یا برا سلوک کرتے ہیں۔ ایسا کرنا مذموم ہے۔ (۳) کسی شرعی مسئلے میں تردد ہو تو اس کی بابت سوال کرلینا چاہیے تاکہ صحیح موقف کے مطابق عمل کیا جاسکے۔ (۴) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم رشتہ داری پر دین کو مقدم رکھتے تھے اور اگر رشتہ داری اور دین کا ٹکراؤ آجاتا تو رشتہ داری کی ذرہ پروا نہ کرتے تھے۔ (۵) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام خطابی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر والدین کے ساتھ مال وغیرہ کی صورت میں اسی طرح صلہ رحمی ضروری ہے جس طرح مسلمان والدین کے ساتھ۔ اور یہ استنباط بھی کیا گیا ہے کہ ماں باپ کا نفقہ اولاد کے ذمے ہے خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔ (صحیح الأدب المفرد: ۱؍۴۴) (۶) کافر والدین کے ساتھ رویے سے متعلق تفصیل سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔