كِتَابُ بَابُ الْعَفْوِ وَالصَّفْحِ عَنِ النَّاسِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: ﴿خُذِ الْعَفْوَ﴾ [الأعراف: 199] وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ، قَالَ: وَاللَّهِ مَا أَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤْخَذَ إِلَّا مِنْ أَخْلَاقِ النَّاسِ، وَاللَّهِ لَآخُذَنَّهَا مِنْهُمْ مَا صَحِبْتُهُمْ
کتاب
لوگوں سے درگزر کرنے کا بیان
حضرت وہب بن کیسان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے سنا:انہوں نے منبر پر یہ آیت پڑھی:’’عفو و درگزر سے کام لیں اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں۔‘‘ پھر فرمایا:اللہ کی قسم یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے متعلق نازل ہوئی۔ اللہ کی قسم جب تک میرا لوگوں سے معاملہ رہے گا میں اس کے حکم کو ضرور لوں گا۔
تشریح :
سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اپنے مخالفین، یہودو نصاریٰ اور مشرکین سے درگزر کا معاملہ کیجیے اور ان کی جہالتوں کی بنا پر ان سے برا سلوک نہ کیجیے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ اسی آیت کے مطابق معاملہ کروں گا اور عفو و درگزر سے کام لے کر صبر کروں گا۔ بعض مفسرین نے خُذِ الْعَفْوَ کے معنی یہ کیے ہیں کہ آپ ان سے زائد مال لیں، یعنی مراد زکاۃ و صدقات وصول کرنا ہے۔
تخریج :
صحیح:أخرجه البخاري، کتاب التفسیر:۴۶۴۳۔ وأبي داود:۴۷۸۷۔
سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ اپنے مخالفین، یہودو نصاریٰ اور مشرکین سے درگزر کا معاملہ کیجیے اور ان کی جہالتوں کی بنا پر ان سے برا سلوک نہ کیجیے۔ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں بھی لوگوں کے ساتھ اسی آیت کے مطابق معاملہ کروں گا اور عفو و درگزر سے کام لے کر صبر کروں گا۔ بعض مفسرین نے خُذِ الْعَفْوَ کے معنی یہ کیے ہیں کہ آپ ان سے زائد مال لیں، یعنی مراد زکاۃ و صدقات وصول کرنا ہے۔