الادب المفرد - حدیث 242

كِتَابُ بَابُ الدَّالِّ عَلَى الْخَيْرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي أُبْدِعَ بِي فَاحْمِلْنِي، قَالَ: ((لَا أَجِدُ، وَلَكِنِ ائْتِ فُلَانًا، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَحْمِلَكَ)) ، فَأَتَاهُ فَحَمَلَهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ: ((مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 242

کتاب خیر کے کام کی راہنمائی کرنے والے کی فضیلت حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ خلاف عادت میری سواری چلنے سے عاجز آگئی ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی سواری دے دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میرے پاس سواری نہیں ہے لیکن تم فلاں آدمی کے پاس جاؤ شاید وہ تمہیں سواری دے دے۔‘‘ چنانچہ وہ اس کے پاس گیا تو اس نے اسے سواری دے دی۔ اس نے آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ نے فرمایا:’’جس نے کسی خیر کے کام پر راہنمائی کی اس کے لیے بھی عمل کرنے والے کے برابر اجر ہے۔‘‘
تشریح : (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر دوران سفر ضرورت کی چیز کسی سے مانگ سکتا ہے اور یہ ممنوع سوال میں داخل نہیں ہے بشرطیکہ اس کی عادت نہ ہو۔ (۲) اگر کسی آدمی کے پاس دینے کی استطاعت نہ ہو تو سائل سے معذرت کی جاسکتی ہے، تاہم لہجے میں نرمی ہو اور سائل کو جھڑکا نہ جائے۔ (۳) انسان اگر کوئی کام خود نہ کرسکتا ہو تو کسی دوسرے ایسے شخص کی طرف راہنمائی کر دینا جو سائل کی ضرورت پوری کرسکے یا کسی سے سفارش کر دینا ایسے ہی ہے جیسے اس نے یہ کام خود کیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِشْفَعُوْا تُؤْجَرُوْا)) ’’سفارش کرو اجر پاؤ۔‘‘ (۴) یہ حدیث جامع کلمات میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خیر کے کام پر لگانے والا بھی اتنا ہی اجر لے جاتا ہے جتنا عمل کرنے والا لیتا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، الإمارۃ، باب فضل إعانة الغازي في سبیل اللّٰه....:۱۸۹۳۔ وأبي داود:۵۱۲۹۔ والترمذي:۲۶۷۔ الصحیحة:۱۶۶۰۔ (۱)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسافر دوران سفر ضرورت کی چیز کسی سے مانگ سکتا ہے اور یہ ممنوع سوال میں داخل نہیں ہے بشرطیکہ اس کی عادت نہ ہو۔ (۲) اگر کسی آدمی کے پاس دینے کی استطاعت نہ ہو تو سائل سے معذرت کی جاسکتی ہے، تاہم لہجے میں نرمی ہو اور سائل کو جھڑکا نہ جائے۔ (۳) انسان اگر کوئی کام خود نہ کرسکتا ہو تو کسی دوسرے ایسے شخص کی طرف راہنمائی کر دینا جو سائل کی ضرورت پوری کرسکے یا کسی سے سفارش کر دینا ایسے ہی ہے جیسے اس نے یہ کام خود کیا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((اِشْفَعُوْا تُؤْجَرُوْا)) ’’سفارش کرو اجر پاؤ۔‘‘ (۴) یہ حدیث جامع کلمات میں سے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر خیر کے کام پر لگانے والا بھی اتنا ہی اجر لے جاتا ہے جتنا عمل کرنے والا لیتا ہے۔