الادب المفرد - حدیث 241

كِتَابُ بَابُ مَا لَا يَجُوزُ مِنَ اللَّعِبِ وَالْمُزَاحِ حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَعْنِي - يَقُولُ: ((لَا يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَتَاعَ صَاحِبِهِ لَاعِبًا وَلَا جَادًّا، فَإِذَا أَخَذَ أَحَدُكُمْ عَصَا صَاحِبِهِ فَلْيَرُدَّهَا إِلَيْهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 241

کتاب جو کھیل اور مذاق جائز نہیں حضرت یزید بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:’’تم میں سے کوئی شخص اپنے ساتھی کا سامان بطور مذاق لے نہ سنجیدگی سے، حتی کہ جب تم میں سے کوئی اپنے ساتھی کی لاٹھی پکڑے تو وہ بھی واپس کر دے۔‘‘
تشریح : مطلب یہ ہے کہ سنجیدگی سے کسی کی کوئی چیز اٹھانا تو چوری ہے جو کسی صورت جائز نہیں اور جہاں تک مذاق سے کسی کی چیز اٹھانے کا تعلق ہے تو اس کے دو نقصان ہیں، ایک تو جس کی چیز اٹھائی جائے وہ خواہ مخواہ پریشان ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:کسی مسلمان کو خوف زدہ کرنا یا پریشان کرنا حرام ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث:۴۱۸۴)دوسرا نقصان یہ ہے کہ مذاق میں اٹھائی گئی چیز کی وجہ سے بسا اوقات بغض اور کینہ پیدا ہو جاتا ہے اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور بسا اوقات معاملہ سنجیدہ ہو جائے تو انسان وہ چیز واپس کرنے سے کتراتا ہے اور نتیجتاً چوری کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کی عدم موجودگی میں اس کی معمولی چیز لینے کی بھی ضرورت پیش آجائے اور انسان لے لے تو وہ بھی واپس کر دینی چاہیے۔
تخریج : حسن:أخرجه أبي داود، الأدب، باب من یاخذ الشیٔ من مزاح:۵۰۰۳۔ والترمذي:۲۱۶۰۔ الارواء:۱۵۱۸۔ مطلب یہ ہے کہ سنجیدگی سے کسی کی کوئی چیز اٹھانا تو چوری ہے جو کسی صورت جائز نہیں اور جہاں تک مذاق سے کسی کی چیز اٹھانے کا تعلق ہے تو اس کے دو نقصان ہیں، ایک تو جس کی چیز اٹھائی جائے وہ خواہ مخواہ پریشان ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:کسی مسلمان کو خوف زدہ کرنا یا پریشان کرنا حرام ہے۔ (سنن ابی داؤد، حدیث:۴۱۸۴)دوسرا نقصان یہ ہے کہ مذاق میں اٹھائی گئی چیز کی وجہ سے بسا اوقات بغض اور کینہ پیدا ہو جاتا ہے اور شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں اور بسا اوقات معاملہ سنجیدہ ہو جائے تو انسان وہ چیز واپس کرنے سے کتراتا ہے اور نتیجتاً چوری کی عادت پڑ جاتی ہے۔ اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ اگر کسی کی عدم موجودگی میں اس کی معمولی چیز لینے کی بھی ضرورت پیش آجائے اور انسان لے لے تو وہ بھی واپس کر دینی چاہیے۔