الادب المفرد - حدیث 234

كِتَابُ بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَبْقَلَةِ، وَحَمَلِ الشَّيْءِ عَلَى عَاتِقِهِ إِلَى أَهْلِهِ بِالزَّبِيلِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ قَالَ: عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ، فَأَبَى وَتَزَوَّجَ مَوْلَاةً لَهُ، يُقَالُ لَهَا: بُقَيْرَةُ، فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَسَلْمَانَ شَيْءٌ، فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، فَأَخْبَرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ، فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ، فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ، قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ - وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ - فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ؟ قَالَ: يَقُولُ سَلْمَانُ: ﴿وَكَانَ الْإِنْسَانُ عَجُولًا﴾ [الإسراء: 11] ، فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ، فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ أَذِنَ لِأَبِي قُرَّةَ، فَدَخَلَ، فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ، وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ، وَإِذَا قُرْطَاطٌ، فَقَالَ: اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلَاتِكَ الَّتِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ فَقَالَ: إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ، كَانَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لِأَقْوَامٍ، فَأُوتَى فَأُسْأَلُ عَنْهَا؟ فَأَقُولُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، وَأَكْرَهُ أَنْ تَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ سَلْمَانَ لَا يُصَدِّقُكَ وَلَا يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ، فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ، فَقُلْتُ يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ، لَتَنْتَهِيَنَّ، أَوْ لَأَكْتُبَنَّ فِيكَ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا، فَأَيُّمَا عَبْدٌ مِنْ أُمَّتِي لَعَنْتُهُ لَعْنَةً، أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً، فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلَاةً))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 234

کتاب سبزیوں کے کھیت کی طرف جانے اور وہاں سے کوئی چیز ٹوکرے میں اٹھا کر گھر والوں کے پاس لانے کا بیان حضرت عمر و بن ابو قرہ کندی سے روایت ہے کہ میرے والد نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن سے شادی کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنی آزاد کردہ لونڈی بقیرہ سے نکاح کرلیا، پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان اور حذیفہ رضی اللہ عنہما کے مابین کوئی ناراضی ہے۔ وہ ان کے پاس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ سبزیوں کے کھیت میں گئے ہیں۔ وہ ادھر ہی روانہ ہوگئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک ٹوکری ہے جس میں سبزیاں ہیں۔ انہوں نے لاٹھی کو زنبیل کے کڑے میں ڈال کر کندھے پر رکھا ہوا ہے۔ ابو قرہ نے کہا:اے ابو عبداللہ تمہارے اور حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا رنجش ہے؟ سلمان رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ آیت پڑھی:﴿وَکَان الاْنِسَانُ عَجُوْلا﴾ ’’انسان بڑا جلد باز ہے‘‘ پھر دونوں چلے اور سلمان رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ سلمان رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کہا، پھر ابو قرہ کو اجازت دی تو وہ بھی داخل ہوگئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر ایک چادر رکھی ہوئی ہے اور اس کے سر کے قریب چند کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں اور پاس زین کی طرح ایک موٹا سا گدا رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے (مجھ سے)فرمایا:اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جو وہ اپنے لیے بچھاتی ہے۔ پھر باتیں شروع کر دیں اور بتایا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ باتیں بیان کرتے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں غصے میں فرما دیتے تھے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں:حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان باتوں کا زیادہ علم ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ پسند نہ تھا (کہ ان باتوں کی وجہ سے جو ان میں بیان کرنے کی نہیں ہیں)لوگوں کے درمیان کینہ پیدا ہو۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی گیا اور کہا کہ سلمان تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں نہ انہیں جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا:اے سلمان بن ام سلمان! (تم نے ایسے کہا ہے)تو میں نے کہا:اے حذیفہ بن ام حذیفہ! تم ایسی باتیں بیان کرنے سے رک جاؤ ورنہ میں تمہارے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھوں گا۔ جب میں نے انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ڈرایا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی (اے اللہ):’’میں بھی اولاد آدم سے ہوں، چنانچہ میں نے اپنی امت کے جس فرد پر بھی کوئی لعنت کی یا اسے برا بھلا کہا جبکہ وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس کے لیے اسے رحمت بنا دے۔‘‘
تشریح : (۱)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان تھے۔ آپ نے انہیں منافقین کے متعلق معلومات دی تھیں۔ حضرت سلمان کا موقف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص حالات میں اگر کسی کے متعلق کوئی ناراضی کا اظہار فرمایا یا منافقین کے بارے میں خبر دی اور اب وہ گزر چکے اور ان کی اولاد مسلمان ہے یا کوئی اور صورت ہے تو اب انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے خواہ مخواہ کینہ پیدا ہوتا ہے۔ اس بات سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسائل بیان کرتے وقت انداز اور مصلحت کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ حق گوئی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ایسا انداز اختیار کرے جس سے فتنہ کھڑا ہو جائے۔ (۳) کھیتوں میں کام کرنا، وزن وغیرہ اٹھانا اور اہل و عیال کی خدمت کرنا ادب میں سے ہے اس لیے امام بخاری نے اس حدیث کو الادب المفرد میں ذکر کیا ہے۔
تخریج : حسن:أخرجه أبي داود، کتاب السنة، باب في النهی عن سب أصحاب رسول اللّه صلى اللّٰه عليه وسلم :۴۶۵۹۔ وأحمد:۵؍ ۴۳۷۔ من حدیث زائدۃ به الصحیحة:۱۷۵۸۔ (۱)حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رازدان تھے۔ آپ نے انہیں منافقین کے متعلق معلومات دی تھیں۔ حضرت سلمان کا موقف تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص حالات میں اگر کسی کے متعلق کوئی ناراضی کا اظہار فرمایا یا منافقین کے بارے میں خبر دی اور اب وہ گزر چکے اور ان کی اولاد مسلمان ہے یا کوئی اور صورت ہے تو اب انہیں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے خواہ مخواہ کینہ پیدا ہوتا ہے۔ اس بات سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے۔ (۲) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسائل بیان کرتے وقت انداز اور مصلحت کا لحاظ ضرور رکھنا چاہیے۔ حق گوئی کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ایسا انداز اختیار کرے جس سے فتنہ کھڑا ہو جائے۔ (۳) کھیتوں میں کام کرنا، وزن وغیرہ اٹھانا اور اہل و عیال کی خدمت کرنا ادب میں سے ہے اس لیے امام بخاری نے اس حدیث کو الادب المفرد میں ذکر کیا ہے۔