الادب المفرد - حدیث 230

كِتَابُ بَابُ إِمَاطَةِ الْأَذَى حَدَّثَنَا مُوسَى قَالَ: حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ، عَنْ وَاصِلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمُرَ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي، حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا أَنَّ الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِئِ أَعْمَالِهَا: النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 230

کتاب تکلیف دہ چیز (راستے سے ہٹانے)کا بیان حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے تو میں نے ان اچھے اعمال میں یہ بھی دیکھا کہ تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹا دی جاتی ہے اور ان کے برے اعمال میں وہ بلغم بھی دیکھا جو مسجد میں پھینکا گیا اور پھر اس پر مٹی بھی نہ ڈالی گئی۔‘‘
تشریح : (۱)ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ() وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ﴾ (الزلزال:۷،۸) جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اس لیے معمولی نیکی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ممکن ہے وہی نجات کا باعث بن جائے۔ اور معمولی برائی کو بھی حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے ہوسکتا ہے اسی پر مؤاخذہ ہو جائے۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے اچھے برے اعمال دکھائے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ از خود واقف نہیں تھے اس لیے جو لوگ آپ کو عالم الغیب سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ (۳) روز قیامت نیکیوں کی قیمت پڑے گی تو انسان کو اندازہ ہوگا کہ زندگی کے لمحات کس قدر قیمتی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لا تَحِقْرَنَّ مِنَ الْمَعُرُوْفِ شَیْئٍا)) ’’نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث:۲۶۲۶) (۴) مسجد میں تھوکنے سے متعلق حکم ابتدائے اسلام کا ہے جبکہ مسجدیں کچی ہوتی تھیں اس وقت اگر کوئی شخص تھوک کر اس پر مٹی ڈال دیتا تھا تو جائز تھا اگر آج بھی کوئی مسجد اسی طرح کی ہو تو وہاں تھوک کر مٹی ڈال دی جائے تو درست ہو گا لیکن آج کل زیادہ تر مساجد میں قالین اور پختہ فرش ہیں، اس لیے ایسی مساجد میں تھوکا نہیں جائے گا۔ اس کے لیے کوئی کپڑا وغیرہ استعمال کرنا چاہیے۔ جیسا کہ تھوکنے کا یہ طریقہ حدیث میں آیا ہے۔ (بخاری:۴۰۵)
تخریج : صحیح:أخرجه مسلم، کتاب المساجد، باب النهي عن البصاق في المسجد:۵۵۳۔ المشکاة:۷۰۹۔ (۱)ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ() وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ﴾ (الزلزال:۷،۸) جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ اس لیے معمولی نیکی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، ممکن ہے وہی نجات کا باعث بن جائے۔ اور معمولی برائی کو بھی حقیر خیال نہیں کرنا چاہیے ہوسکتا ہے اسی پر مؤاخذہ ہو جائے۔ (۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کے اچھے برے اعمال دکھائے گئے، اس سے معلوم ہوا کہ آپ از خود واقف نہیں تھے اس لیے جو لوگ آپ کو عالم الغیب سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ (۳) روز قیامت نیکیوں کی قیمت پڑے گی تو انسان کو اندازہ ہوگا کہ زندگی کے لمحات کس قدر قیمتی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((لا تَحِقْرَنَّ مِنَ الْمَعُرُوْفِ شَیْئٍا)) ’’نیکی کے کسی کام کو حقیر مت سمجھو۔‘‘ (صحیح مسلم، البر والصلة، حدیث:۲۶۲۶) (۴) مسجد میں تھوکنے سے متعلق حکم ابتدائے اسلام کا ہے جبکہ مسجدیں کچی ہوتی تھیں اس وقت اگر کوئی شخص تھوک کر اس پر مٹی ڈال دیتا تھا تو جائز تھا اگر آج بھی کوئی مسجد اسی طرح کی ہو تو وہاں تھوک کر مٹی ڈال دی جائے تو درست ہو گا لیکن آج کل زیادہ تر مساجد میں قالین اور پختہ فرش ہیں، اس لیے ایسی مساجد میں تھوکا نہیں جائے گا۔ اس کے لیے کوئی کپڑا وغیرہ استعمال کرنا چاہیے۔ جیسا کہ تھوکنے کا یہ طریقہ حدیث میں آیا ہے۔ (بخاری:۴۰۵)