الادب المفرد - حدیث 23

كِتَابُ بَابُ لَا يَسْتَغْفِرُ لِأَبِيهِ الْمُشْرِكِ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ﴾ [الإسراء: 23] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ [الإسراء: 24] ، فَنَسَخَتْهَا الْآيَةُ فِي بَرَاءَةَ: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ [التوبة: 113]

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 23

کتاب مشرک (ماں)باپ کے لیے دعائے مغفرت نہ کی جائے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آیت کریمہ: ﴿اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْکِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ کِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا() وَ اخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا﴾ (الاسراء: ۲۳، ۲۴)’’اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہہ اور انہیں مت جھڑک، اور ان سے بہت احترام والی (ادب و احترام سے)بات کر۔ اور ان کے سامنے رحم دلی سے عاجزی کے ساتھ اپنا بازو (پہلو)جھکائے رکھ اور کہہ: میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو سورۂ براء ت والی آیت: ﴿مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ﴾ (التوبة: ۱۱۳)’’نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں، ان کے متعلق یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔‘‘ نے منسوخ کر دیا۔‘‘
تشریح : (۱)والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی مغفرت اور بخشش کی دعا کی جائے، لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب ان کی وفات ایمان کی حالت میں ہوئی ہو۔ بصورت دیگر ان کے لیے دعا کرنا ناجائز ہے۔ (۲) مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ پہلی آیت میں جو عموم تھا کہ والدین خواہ کافر ہوں یا مسلمان، ہر شخص کو اپنے والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنی چاہیے، یہ عموم سورۂ توبہ کی آیت سے منسوخ ہوگیا اور دعا کو صرف مسلمان والدین تک محدود کر دیا گیا۔ (۳) سورۂ توبہ کی آیت میں اگرچہ والدین کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن اولیٰ القربی میں والدین بطریق اولیٰ داخل ہیں۔ (۴) اگر ماں باپ کافر یا مشرک یا بے عمل ہوں تو ان کی زندگی میں ان کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے۔ آیات کی وضاحت گزشتہ اوراق میں بیان کی جاچکی ہے۔
تخریج : حسن: أخرجه الطبراني فی تفسیره: ۱۷؍ ۴۲۱۔ (۱)والدین کے فوت ہونے کے بعد ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی مغفرت اور بخشش کی دعا کی جائے، لیکن یہ اس صورت میں جائز ہے جب ان کی وفات ایمان کی حالت میں ہوئی ہو۔ بصورت دیگر ان کے لیے دعا کرنا ناجائز ہے۔ (۲) مذکورہ بالا حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ پہلی آیت میں جو عموم تھا کہ والدین خواہ کافر ہوں یا مسلمان، ہر شخص کو اپنے والدین کے لیے رحمت کی دعا کرنی چاہیے، یہ عموم سورۂ توبہ کی آیت سے منسوخ ہوگیا اور دعا کو صرف مسلمان والدین تک محدود کر دیا گیا۔ (۳) سورۂ توبہ کی آیت میں اگرچہ والدین کا نام تو نہیں لیا گیا لیکن اولیٰ القربی میں والدین بطریق اولیٰ داخل ہیں۔ (۴) اگر ماں باپ کافر یا مشرک یا بے عمل ہوں تو ان کی زندگی میں ان کی ہدایت کی دعا کرنی چاہیے۔ آیات کی وضاحت گزشتہ اوراق میں بیان کی جاچکی ہے۔