الادب المفرد - حدیث 225

كِتَابُ بَابُ إِنَّ كُلَّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ)) ، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: ((فَيَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ، فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ)) ، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، أَوْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ((فَيُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ)) ، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ((فَيَأْمُرُ بِالْخَيْرِ، أَوْ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ)) ، قَالُوا: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ؟ قَالَ: ((فَيُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ، فَإِنَّهُ لَهُ صَدَقَةٌ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 225

کتاب بلاشبہ ہر نیکی صدقہ ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ہر مسلمان کے ذمے (ہر روز)صدقہ ہے‘‘ انہوں نے کہا:اگر وہ نہ پائے تو؟ آپ نے فرمایا:’’اپنے دست و بازو سے محنت کرکے کمائے، پھر اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے‘‘ انہوں نے کہا:اگر وہ اس کی طاقت نہ رکھے یا ایسا نہ کرسکتا ہو تو؟ آپ نے فرمایا:’’وہ مجبور اور بے بس کی مدد کرے۔‘‘ انہوں نے کہا:اگر وہ یہ کرنے سے بھی عاجز ہو تو؟ آپ نے فرمایا:’’وہ نیکی اور اچھے کام کا حکم دے‘‘ انہوں نے عرض کیا:اگر وہ یہ بھی نہ کرسکے؟ آپ نے فرمایا:’’وہ لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے باز رہے یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔‘‘
تشریح : (۱)بعض روایات میں ہے کہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور اگر کوئی شخص سورج نکلنے کے بعد دو رکعت ادا کرلیتا ہے تو یہ صدقہ ادا ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داؤد، الصلاة، حدیث:۱۲۸۶) لیکن جو شخص صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے مال سے صدقہ کرنا چاہیے اور اگر طاقت نہ ہو تو سبحان اللہ کہنا بھی صدقہ ہے اور کسی کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، یعنی امور خیر تمام صدقے کا درجہ رکھتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:۲۸۹۱) (۲) محنت کرنا دست سوال دراز کرنے سے ہزارہا درجہ بہتر ہے اور انسان کو اپنی کمائی سے صدقہ و خیرات ضرور کرنا چاہیے خواہ وہ مزدور ہی ہو۔ (۳) مجبور اور بے بس کی مدد کرنا اور بجھے ہوئے چولہے کو جلانا بہت بڑی نیکی ہے جیسا گزشتہ فوائد میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ عصر حاضر میں کئی لوگ زندگی سے مایوس ہوکر خود کشی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ثروت انہیں اپنے مالوں میں شریک کرکے اللہ کے دیے ہوئے مال سے انہیں بھی فائدہ پہنچائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو نیکی کا کوئی بھی راستہ اختیار کرلیا جائے ورنہ کم از کم لوگوں کو ایذا پہنچانے سے باز رہا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے گناہ اپنے سر لے کر جہنم رسید ہو جائے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب الأدب، باب کل معروف صدقة:۶۰۲۲۔ ومسلم:۱۰۰۸۔ والنسائي:۲۵۳۸۔ الصحیحة:۵۷۳۔ (۱)بعض روایات میں ہے کہ ہر جوڑ پر صدقہ ہے اور اگر کوئی شخص سورج نکلنے کے بعد دو رکعت ادا کرلیتا ہے تو یہ صدقہ ادا ہو جاتا ہے۔ (سنن أبي داؤد، الصلاة، حدیث:۱۲۸۶) لیکن جو شخص صدقہ کرنے کی طاقت رکھتا ہو اسے مال سے صدقہ کرنا چاہیے اور اگر طاقت نہ ہو تو سبحان اللہ کہنا بھی صدقہ ہے اور کسی کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے، یعنی امور خیر تمام صدقے کا درجہ رکھتے ہیں۔ (صحیح البخاري، الجهاد، حدیث:۲۸۹۱) (۲) محنت کرنا دست سوال دراز کرنے سے ہزارہا درجہ بہتر ہے اور انسان کو اپنی کمائی سے صدقہ و خیرات ضرور کرنا چاہیے خواہ وہ مزدور ہی ہو۔ (۳) مجبور اور بے بس کی مدد کرنا اور بجھے ہوئے چولہے کو جلانا بہت بڑی نیکی ہے جیسا گزشتہ فوائد میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ عصر حاضر میں کئی لوگ زندگی سے مایوس ہوکر خود کشی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اہل ثروت انہیں اپنے مالوں میں شریک کرکے اللہ کے دیے ہوئے مال سے انہیں بھی فائدہ پہنچائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو نیکی کا کوئی بھی راستہ اختیار کرلیا جائے ورنہ کم از کم لوگوں کو ایذا پہنچانے سے باز رہا جائے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے گناہ اپنے سر لے کر جہنم رسید ہو جائے۔