الادب المفرد - حدیث 221

كِتَابُ بَابُ أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الدُّنْيَا أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الْآخِرَةِ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي هَاشِمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي نُصَيْرُ بْنُ عُمَرَ بْنِ يَزِيدَ بْنِ قَبِيصَةَ بْنِ يَزِيدَ الْأَسَدِيُّ، عَنْ فُلَانٍ قَالَ: سَمِعْتُ بُرْمَةَ بْنَ لَيْثِ بْنِ بُرْمَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ قَبِيصَةَ بْنَ بُرْمَةَ الْأَسَدِيَّ قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ((أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمَعْرُوفِ فِي الْآخِرَةِ، وَأَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الدُّنْيَا هُمْ أَهْلُ الْمُنْكَرِ فِي الْآخِرَةِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 221

کتاب جو دنیا میں اچھے ہیں وہ آخرت میں بھی اچھے ہوں گے قبیصہ بن برمہ اسدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا جب میں نے آپ کو فرماتے ہوئے سنا:’’جو لوگ دنیا میں اہل معروف ہیں وہ آخرت میں بھی اہل معروف ہوں گے اور جو دنیا میں اہل منکر ہیں وہ آخرت میں بھی اہل منکر ہوں گے۔‘‘
تشریح : (۱)اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کا نام معروف ہے اور یہ عرف سے ماخوذ ہے، یعنی جسے انسان اپنے اصل کے اعتبار سے جانتا ہو اور اس سے مانوس ہو۔ تحلیق آدم کے بعد معاصی کے ظہور سے پہلے انسان جن اعمال و اطوار سے واقف تھا اور جو اس کی فطرت تھی وہ معروف ہے اور جو اس سے ہٹ کر ہو اور انسان فطرتاً اس سے مانوس نہ ہو وہ منکر ہے اور ہر وہ کام یا اخلاق جسے اللہ کی شریعت میں مکروہ یا حرام قرار دیا گیا ہے انسان اپنی اصل کے اعتبار سے اس سے مانوس نہیں ہے۔ گویا عرف قدیم میں جو چیز معروف نہیں تھی اور عصیان کے نتیجے میں ظہور میں آئی وہ منکر کہلاتی ہے۔ (۲) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کام کرتے ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے اخلاق و اعمال دنیا میں اچھے ہیں وہ آخرت میں بھی اچھے ہوں گے کہ انہیں ان کی نیکی کا بدلہ ملے گا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں کسی شخص کو اچھے کاموں کی توفیق ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت بھی اس کا شمار اچھے لوگوں میں ہوگا۔ اور جو دنیا میں بد اعمال اور برے ہیں اور ان کی شہرت بھی بری ہے وہ روز قیامت بھی برے ہی شمار ہوں گے۔ ایک روایت میں آپ کا ارشاد گرامی ہے: ((أهل الجنة مَنْ ملأ اللّٰهَ أذُنَیْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ خَیْرًا وَهُوَ یَسْمَعُ وأهل النَّار مَنْ مَلأ اللّٰهَ أذنیه مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ شَرًّا وَهُوَ یَسْمَعُ))(الصحیحة للألباني، حدیث:۱۷۴۰) ’’اہل جنت وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے اچھے ریمارکس خود اپنے کانوں سے سنیں اور اہل دوزخ وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے برے ریمارکس اپنے کانوں سے سنیں۔‘‘ یعنی دنیا میں اچھی شہرت اور نیکی کی توفیق اہل جنت کی علامت ہے اور اس کے برعکس بری شہرت اور گناہ کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ انجام بھی برا ہے۔
تخریج : صحیح لغیرہ:أخرجه الطبراني في الکبیر:۱۸؍ ۳۷۵۔ وأبو نعیم في المعرفة:۵۷۴۰۔ والبزار:۳۲۹۴۔ الروض النضیر:۱۰۳۱۔ (۱)اچھے اعمال اور اچھے اخلاق کا نام معروف ہے اور یہ عرف سے ماخوذ ہے، یعنی جسے انسان اپنے اصل کے اعتبار سے جانتا ہو اور اس سے مانوس ہو۔ تحلیق آدم کے بعد معاصی کے ظہور سے پہلے انسان جن اعمال و اطوار سے واقف تھا اور جو اس کی فطرت تھی وہ معروف ہے اور جو اس سے ہٹ کر ہو اور انسان فطرتاً اس سے مانوس نہ ہو وہ منکر ہے اور ہر وہ کام یا اخلاق جسے اللہ کی شریعت میں مکروہ یا حرام قرار دیا گیا ہے انسان اپنی اصل کے اعتبار سے اس سے مانوس نہیں ہے۔ گویا عرف قدیم میں جو چیز معروف نہیں تھی اور عصیان کے نتیجے میں ظہور میں آئی وہ منکر کہلاتی ہے۔ (۲) حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں نیکی کے کام کرتے ہیں اور اچھی شہرت رکھتے ہیں اور ان کے اخلاق و اعمال دنیا میں اچھے ہیں وہ آخرت میں بھی اچھے ہوں گے کہ انہیں ان کی نیکی کا بدلہ ملے گا۔ دوسرے لفظوں میں دنیا میں کسی شخص کو اچھے کاموں کی توفیق ملنا اس بات کی دلیل ہے کہ روز قیامت بھی اس کا شمار اچھے لوگوں میں ہوگا۔ اور جو دنیا میں بد اعمال اور برے ہیں اور ان کی شہرت بھی بری ہے وہ روز قیامت بھی برے ہی شمار ہوں گے۔ ایک روایت میں آپ کا ارشاد گرامی ہے: ((أهل الجنة مَنْ ملأ اللّٰهَ أذُنَیْهِ مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ خَیْرًا وَهُوَ یَسْمَعُ وأهل النَّار مَنْ مَلأ اللّٰهَ أذنیه مِنْ ثَنَاءِ النَّاسِ شَرًّا وَهُوَ یَسْمَعُ))(الصحیحة للألباني، حدیث:۱۷۴۰) ’’اہل جنت وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے اچھے ریمارکس خود اپنے کانوں سے سنیں اور اہل دوزخ وہ ہیں جو اپنے بارے میں لوگوں کے برے ریمارکس اپنے کانوں سے سنیں۔‘‘ یعنی دنیا میں اچھی شہرت اور نیکی کی توفیق اہل جنت کی علامت ہے اور اس کے برعکس بری شہرت اور گناہ کی زندگی اس بات کی دلیل ہے کہ انجام بھی برا ہے۔