الادب المفرد - حدیث 220

كِتَابُ بَابُ مَعُونَةِ الرَّجُلِ أَخَاهُ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ: أَيُّ الْأَعْمَالِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ((إِيمَانٌ بِاللَّهِ، وَجِهَادٌ فِي سَبِيلِهِ)) ، قِيلَ: فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((أَغْلَاهَا ثَمَنًا، وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا)) ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ بَعْضَ الْعَمَلِ؟ قَالَ: ((فَتُعِينُ ضَائِعًا، أَوْ تَصْنَعُ لِأَخْرَقَ)) ، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ ضَعُفْتُ؟ قَالَ: ((تَدَعُ النَّاسَ مِنَ الشَّرِّ، فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 220

کتاب آدمی کا اپنے بھائی کی مدد کرنے کا بیان حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ سے پوچھا گیا:اعمال میں سے کون سا عمل بہتر ہے؟ آپ نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ عرض کیا گیا:کون سی گردن آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:’’جس کی قیمت زیادہ ہو اور مالکوں کے نزدیک وہ بہت عمدہ ہو۔‘‘ سائل نے عرض کیا:اگر مجھ میں بعض اعمال کی استطاعت نہ ہو تو آپ کیا کرنے کی راہنمائی کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:’’پھر تم کسی آدمی کی مدد کرو جو ضائع ہو رہا ہو یا کسی بے وقوف اور بے ہنر کا کام کرو۔‘‘ سائل نے عرض کیا:اگر میں (یہ کرنے سے بھی)کمزور پڑ جاؤں اور نہ کرسکوں تو؟ آپ نے فرمایا:’’لوگوں کو اپنے شر سے بچاؤ (اور تکلیف نہ دو)تو یہ تیرا اپنی جان پر صدقہ ہے جو تو کرے گا۔‘‘
تشریح : (۱)دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل خود سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہی تھے جس سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل اعمال کی معلومات اور ان پر عمل کرنے میں بڑے حریص تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا۔ (۲) ایمان بھی عمل بلکہ سب سے افضل عمل ہے جس پر تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار ہے۔ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوسکتا۔ جہاد ایمان کی راہ کو ہموار کرتا ہے اس لیے ایمان کے بعد اس کا ذکر فرمایا۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش جہاد کہلاتی ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کبھی تلوار سے جہاد افضل ہوتا ہے اور کبھی قلم و قرطاس وغیرہ سے۔ (۳) کسی کو غلامی سے آزادی دلوانا اسے نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ ایک حدیث میں اس کی فضیلت یہ ذکر ہوئی ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کرنے کے بدلے اللہ تعالیٰ آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث:۲۵۱۷) عصر حاضر میں کسی مقروض اور مفلوک الحال کی مدد کرکے بھی یہ فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۴) جہاد کے لیے شجاعت اور بہادری کی ضرورت ہے اور غلام کو آزادی وہی شخص دلوا سکتا ہے جس کے پاس مال و دولت ہو، خصوصاً جب غلام مہنگا بھی ہو۔ اس لیے یہ دونوں کام ہر آدمی نہیں کرسکتا۔ لیکن کسی مجبور کی مدد اور نصرت کرنا تو حتی الوسع ہر انسان کے بس میں ہے۔ ایک حدیث میں آپ کا فرمان ہے:’’مجھے کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جانا مسجد نبوی میں ایک ماہ قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:۹۰۶) اگر کوئی شخص یہ سارے کام کرنے سے عاجز ہو، یعنی اس کے بس میں نہ ہو تو دوسرے کو ایذا رسانی سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔ یعنی جو شخص کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو کم از کم کسی کو ایذا نہ دینا تو اس کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ لوگوں کی ایذا پر صبر کرتا ہے اور اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھتا ہے تو یقیناً وہ اپنی ذات پر صدقہ کرنے والا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کی تنگی سے بچا لیا۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، کتاب العتق، باب الرقاب أفضل:۲۵۱۸۔ ومسلم:۸۴۔ والنسائي:۳۱۲۹۔ وابن ماجة:۲۵۲۳۔ الصحیحة:۵۷۵۔ (۱)دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل خود سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ ہی تھے جس سے پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم افضل اعمال کی معلومات اور ان پر عمل کرنے میں بڑے حریص تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی رضا کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا۔ (۲) ایمان بھی عمل بلکہ سب سے افضل عمل ہے جس پر تمام اعمال کی قبولیت کا دارومدار ہے۔ ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں ہوسکتا۔ جہاد ایمان کی راہ کو ہموار کرتا ہے اس لیے ایمان کے بعد اس کا ذکر فرمایا۔ اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے کی جانے والی ہر کوشش جہاد کہلاتی ہے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کبھی تلوار سے جہاد افضل ہوتا ہے اور کبھی قلم و قرطاس وغیرہ سے۔ (۳) کسی کو غلامی سے آزادی دلوانا اسے نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ ایک حدیث میں اس کی فضیلت یہ ذکر ہوئی ہے کہ مسلمان غلام کو آزاد کرنے کے بدلے اللہ تعالیٰ آزاد کرنے والے کے ہر عضو کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، العتق، حدیث:۲۵۱۷) عصر حاضر میں کسی مقروض اور مفلوک الحال کی مدد کرکے بھی یہ فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے۔ (۴) جہاد کے لیے شجاعت اور بہادری کی ضرورت ہے اور غلام کو آزادی وہی شخص دلوا سکتا ہے جس کے پاس مال و دولت ہو، خصوصاً جب غلام مہنگا بھی ہو۔ اس لیے یہ دونوں کام ہر آدمی نہیں کرسکتا۔ لیکن کسی مجبور کی مدد اور نصرت کرنا تو حتی الوسع ہر انسان کے بس میں ہے۔ ایک حدیث میں آپ کا فرمان ہے:’’مجھے کسی مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جانا مسجد نبوی میں ایک ماہ قیام کرنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ (سلسلة الأحادیث الصحیحة، حدیث:۹۰۶) اگر کوئی شخص یہ سارے کام کرنے سے عاجز ہو، یعنی اس کے بس میں نہ ہو تو دوسرے کو ایذا رسانی سے باز رہنا بھی نیکی ہے۔ یعنی جو شخص کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو کم از کم کسی کو ایذا نہ دینا تو اس کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ لوگوں کی ایذا پر صبر کرتا ہے اور اپنے شر سے دوسروں کو محفوظ رکھتا ہے تو یقیناً وہ اپنی ذات پر صدقہ کرنے والا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو دنیا و آخرت کی تنگی سے بچا لیا۔